Thursday 28 August 2014

پاکستانی جمہوریت


ہمارا پیارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان  جہاں اسلام بھی پورا نہیں اور جمہوریت تو ہے ہی  لولی لنگڑی ، یہاں اسلام بھی مذہبی رہنماؤں کی مرضی کا نافذ ہے اور جمہوریت سیاسی رہنماؤں کے مفاد کی خاطر نافذ ہے اور اسی مفاد کے پیش نظر آج پوری پارلیمنٹ جمہوریت کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے  مفاد کی خاطر ایک ہوگئی ہےکیونکہ ان تمام سیاستدانوں کو پتہ ہے یہ طرز حکومت ختم ہوگیا تو ان لوگوں کو کچھ نہیں ملنا.
 جمہوریت کیا ہے ، جمہوریت  ایک طرز حکومت ہے جس میں عوام کی حکومت ہوتی ہے ۔ جس میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں، یا یوں کہا جاتا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہوتی ہے، جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ بلاواسطہ جمہوریت ، اور بالواسطہ جمہوریت ۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے۔ جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غوروفکر کرنا ممکن ہو
جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔ اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی۔ چنانچہ ہر شخص کے مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کے بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں۔ جو ووٹروں کی طرف سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب صحیح ہو۔
لیکن مملکت خداد پاکستان میں نہ تو حقیقی جمہوریت ہے  اور نہ ہی پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی نمائندے موجود ہیں،  کیونکہ نمائندے منتخب کرنا کا ذریعہ الیکشن ہیں اور حالیہ ہونے والے الیکشن پر بدترین دھاندلی کا الزام ہے   عوام کا  ووٹ کو چوری کئے جانے کا الزام ہے، اور یہ الزام اس صرف الیکشن میں نہیں بلکہ اب تک  ہونے والے تمام الیکشن  میں دھاندلی کا شور سنائی دیتا تھا مگر ہوتا کچھ نہیں تھا .
 موجودہ حکومت کا رویہ  جمہوری نہیں بلکہ  آمرانہ  ہے. ملک کے ترقی یافتہ شہر کے پوش علاقے میں 14 لوگوں کو مار دیا جاۓ اور  انکے لواحقین کو FIR درج کرانے کے لیے لانگ مارچ اور دھرنوں کا سہارا لینا پڑے. کیونکہ اس  واقع میں حکومت کے اعلی حکام کے گریبان تک ہاتھ جاتا ہے اس لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ FIR  درج نا ہو . تو یہاں طاقت کا سر چشمہ عوام ہوئی یا حکمران ؟
پچھلے  14 دن سے جو کچھ اس ملک کے دارلحکومت اسلام آباد میں ہو رہا ہے اس نے پوری قوم کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے. جمہوریت  کا لفظ قوم کو ایک گالی کی طرح سے لگ رہا ہے کہ کیا ہے یہ جمہوریت،  جس کو بچانے کے لیے ملک کے تمام چور ڈاکو مل کر بیٹھ گئے .  یہ ہے جمہوریت جس میں جمہوری نمائندے عوام کا نمائندہ منتخب ہونے کے بعد اپنے حلقوں میں جانے کی زحمت نہیں کرتے   پرانے الیکشن ختم ہونے اور نئے الیکشن ہونے تک یہ تمام عوامی نمائندے عوام سے پرہیز کرتے ہیں کہ کہیں غریب عوام سے مل کر انھیں کوئی عوامی بیماری نا لگ جاۓ .  
ملک میں آمرانہ طرز حکومت ہو یا جمہوری عوام کو کیا فرق پڑتا ہے میرے خیال میں کوئی فرق نہیں پڑتا جب سے ہم نے ہوش سھمبالا ہے  عوام کے حقوق سلب ہوتے ہی نظر آتے ہیں .  ہاں یہ فرق ہوتا ہے کہ آمرانہ نظام میں ہم ایک آدمی پر تنقید ہوتی ہے  ہیں جبکہ جمہوری نظام میں پوری پارٹی   اور اس میں شامل سیاستدانوں پر تنقید کرنی پڑتی  ہے مگر اس تنقید سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ جماعت اپنی باری مکمل کر کہ دوسری جماعت کو موقع دے جاتی ہے ، عوام کی حالت زار پر کوئی فرق نہیں پڑتا  یہ عوام پہلے بھی خواب پر زندہ تھی  اور آئندہ بھی خواب اور امید پر ہی زندہ رہے گی.
یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں عوام کو صحت و صفائی کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں، سرکاری اسپتالوں میں دوائی نہیں ملتی، عدالت سے انصاف نہیں ملتا،  نلکے میں پانی نہیں آتا گھر میں بجلی نہیں آتی ، ہاں اس جمہوریت میں اگر کچھ ملتا ہے تو مہنگائی ملتی ہے ، کرپشن ملتی ہے ،  لاقانونیت  ملتی  ہے ، بیروزگاری ملتی ہے ، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں غریب  مزید غریب اور امیر مزید امیر ہوتی جا رہی ہے،
تمام سیاستدان اس بات کا شور کر رہے ہیں کہ آئین سے انحراف نہیں کریں گے ، یہ آئین کس نے بنایا  اور کس کے لیے بنایا گیا عوامی نمائندوں نے عوام کے لیے بنایا  لیکن اس آئین کو اس طرح پیش کیا  گیا ہے جیسے یہ آسمانی صحیفہ ہے  اور اس میں  ردوبدل کرنے سے یہ گناہ میں مبتلا ہو جائیں گے .  اس آئین میں عوام کے حقوق  کی جتنی شقات شامل ہیں ان پر تو عمل ہی نہیں کیا جاتا  اور وہ تمام شقا ت جو کہ حکمرانوں کے مفاد میں وہ سب نافذ العمل ہیں اگر کچھ کمی رہ جاتی ہے تو آئین میں ترمیم کر کے پوری کر لی جاتی ہے  نہیں تو اس شق پر عمل ہے نہیں کیا جاتا اس کی مثال ہمیں  پچھلے الیکشن میں دیکھنے کو ملی، اس وقت یہ بات سامنے آئی کہ  آئین کی شق  62 اور 63 کے تحت صادق اورامین  لوگ ہی الیکشن لڑنے کے اہل ہیں  اور تمام لوگوں کے کاغذات  کو اسی تناظر میں پرکھا گیا  اور اگر اس بات کو مان لیا جاۓ  تو موجودہ اسمبلی میں تو سارے لوگ صادق اور امین ہی ہیں لیکن کچھ صادق اور امین جعلی ڈگریوں کے باعث تو اسمبلیوں سے باہر ھوگئے ہیں لیکن باقی جو بچے ہیں ان کی صداقت کے چرچے زبان زدو عام ہیں . یہ صادق اور امینوں کی اسمبلی ہے  اس لئے اس اسمبلی کو نہیں توڑا جا سکتا.
پاکستان کی اکثریت اس بات کی حامی ہے ملک میں تبدیلی آنی چاہئیے لیکن حکومت کی جانب سے مستقل ایک بات سامنے آرہی ہے کہ جمہوریت کو نقصان نہیں ہونے دیا جاۓ گا  ، اب یہ تبدیلی کس طرح آئیے گی ؟ ووٹ کے ذریعے تبدیلی کا عمل تو بااثر لوگ ہونے نہیں دیتے  اور روڈ پر تبدیلی لانے کے دھرنے یا لانگ مارچ ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ غیر آئنی اور غیر قانونی عمل ہے . اب اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے تو نہیں بھیجے گا جس سے تبدیلی آئی گی.  یہ تمام لوگ جو باری باری حکومت کرتے ہیں یہ کبھی نہیں چاہیں گے ملک میں صاف شفاف الیکشن ہوں اور ملک میں حقیقی عوامی حکومت بن جاۓ. بہرحال الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ  ان لانگ مارچ اور دھرنوں کا جو بھی نتیجہ نکلے وہ پاکستان اور اس کی عوام کے حق میں بہتر ہو.  

No comments:

Post a Comment