Friday 27 March 2015

شرمندہ نا ہوں .........

 ہر انسان غلطیاں کرتا ہے اور اس سے ہی آگے بڑھنے کا راستہ بھی ملتا ہے ، تاہم جب بھی ہمارے کسی فیصلے کو لوگ غلط قرار دیتے ہیں تو ہم معذرت خواہانہ رویے کے ساتھ معافی مانگ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جبکہ ہم میں سے کچھ لوگ بحث کر کہ شرمندگی کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں  مگر کچھ دنیا میں کچھ کام اسے بھی ہیں جن کہ کرنے پر ہمیں پچھتانے یا شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی مگر ان کا جواب دیتے ہوۓ بھی ہم شرمندگی سے نظر چرانے میں عافیت جانتے ہیں. جبکہ در حقیقت وہ کام ہماری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں اور ایسے وہ کام  کسی بھی معذرت خواہانہ رویے کا باعث نہیں  بلکہ  ستائش کے حقدار ہوتے ہیں۔
جلد سونے کی عادت
اگر آپ اور دیگر دوست شام کو کسی پروگرام کے لیے رات دیر تک جاگنا چاہتے ہیں مگر آپ تھکاوٹ محسوس کررہے ہیں اور سونے لیٹ جاتے ہیں تو اس میں کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ نیند ہر ایک کی صحت اور خوشی کے لیے لازمی ہوتی ہے، اور سائنس کا ماننا ہے کہ کم نیند ہمارے اندر تنا اور دیگر سنگین طبی مسائل کا سبب بنتی ہے، تو بستر پر جلد چلے جانا آپ کے جاگنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اس پر معذرت کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام کے مطابق  بھی رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنے کا حکم ہے مگر ہم سے اگر کوئی رات کو جلدی سونے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اسے فورا کہتے ہیں کہ بھائی اتنی جلدی سو کر کیا کرے گا ابھی تو کچھ بھی ٹائم نہیں ہوا اور وہ بیچارہ اپنی صفائی شرمندگی سے پیش کرتا ہوا نہیں  سو پائے گا .
انکار کرنا
کئی بار مختلف چیزوں کو انکار کردینا ہاں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتا ہے، درحقیقت اگر آپ اپنی شخصیت کو بوجھ تلے دبانے سے بچانا چاہتے ہیں تو انکار کرنے کی جرات پیدا کرنا ہی پڑتی ہے اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں کیونکہ یہ آپ کے اپنے ہی حق میں بہتر ہوتی ہے اور اس پر دیگر افراد کی تنقید کو نظرانداز کردیا جانا چاہئے۔ مگر اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں اگر آپ کسی دوست، عزیز یا رشتہ دار کو کسی کام سے انکار کردیں . تو جواب میں آپ کو بہت سی تلخ باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، آج کل ہمارے معاشرے میں انکار کو اپنی بےعزتی سے معمور  کیا جانے لگا ہے حالانکہ وہ کام آپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہو مگر آپ کو ہاں کرنی ہے اور اس کے بعد  کام نا کرنے کے باعث آپ کو مزید تلخ باتوں کا سامنا کرنا ہے تو بہتر ہے پہلے انکار کر دیں.
تنہا وقت گزارنا
ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بیشتر اس خیال سے اتفاق نہ کریں کہ اپنے خیالات کے ساتھ کچھ وقت تنہا گزاریں مگر سائنس کا ماننا ہے کہ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے خاص طور پر اس وقت جب ہم اپنے لیے کچھ وقت چاہتے ہو، تنہا رہنے سے متعدد فوائد ہوتے ہیں یہ آپ کو ری چارج کرنے میں مدد دیتا ہے،اس سے آپ خود پر کنٹرول کرنا اور  اپنی غلطیوں سے سبق  سیکھ سکتے ہیں۔مگر ہم سے اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو فورا ہی سنے کو ملتا ہے پاگل ھوگئے ہو کیا اکیلے بیٹھے کیا کر رہے ہو. یا پتا نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے ، بہت زیادہ مغرور ہوگیا ہے. دماغ خراب ہوگیا ہے غرض اس طرح کے کئی باتیں ہمارے سماعتوں سے ٹکراتی ہیں اور ہم شرمندہ ہو جاتے ہیں حالانکہ اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں .
اپنی پسند کو  ترجیح دیں
زندگی میں خوشی بہت اہمیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی پسند اور ضروریات کو ترجیح دینا چاہئے جس پر معذرت کی بھی ضرورت نہیں، درحقیقت یہ سوچ صحت مندانہ ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ ذہنی، جذبات، جسمانی اور روحانی طور پر اپنے موجود خلاءکو بھررہے ہیں اور یہ خودغرضی نہیں ہوتی مگر ہم اپنی پسند کے بجائے دوسروں کی پسند کو ترجیح دیتے ہیں اور کوئی ہماری پسند پر تنقید کردے تو شرمندگی کے ساتھ توجیحات پیش کرتے ہیں .
خراب دوستی سے جان چھڑانا
دوستوں سے علیحدگی بہت مشکل ہوتی ہے بلکہ کئی معاملات میں تو یہ کسی رومانوی تعلق توڑنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، مگر کئی بار یہ علیحدگی آپ کی صحت کے لیے بہتر ثابت ہوتی ہے، کیونکہ کسی دوست کے ساتھ کشیدگی اور دوست کے کسی غلط کام یا دوستوں کی غلط صحبت  آپ کے اندر تنا بڑھاتا ہے اور مختلف مسائل کا سبب بنا دے گا، اگر ایسے تعلق کو ختم کیا جاتا ہے تو اس پر معذرت خواہانہ سوچ کسی بھی طرح درست نہیں۔ اور مزید براں  مستقبل میں کسی مسئلے میں پھنسنے سے بہتر ہے کہ  اس سے پہلے ہی جان چھڑا لی جائے ، اور لوگوں کی اس بات پر کہ وہ تو اس بندے کا فعل ہے تمہارا نہیں تو جناب اس کے لیے بڑے بزرگوں کی دی جانیوالی یہ مثال کے "گیہوں کے ساتھ گہن بھی پستا ہے " بہترین جواب ہے.
 غرض یہ کے اس قسم کے کئی کام ہیں جو کرنا کسی بھی طرح شرمندگی کا باعث نہیں ہے ، مگر ہم ان کو کرتے ہوۓ شرمندہ سے ہو جاتے ہیں . حالانکہ شرمندہ ہونے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہئیے کے یہ کام ہمارے لیے فائدہ مند ہے تو ہمیں شرمندہ نہیں ہونا چاہئیے.

Thursday 28 August 2014

پاکستانی جمہوریت


ہمارا پیارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان  جہاں اسلام بھی پورا نہیں اور جمہوریت تو ہے ہی  لولی لنگڑی ، یہاں اسلام بھی مذہبی رہنماؤں کی مرضی کا نافذ ہے اور جمہوریت سیاسی رہنماؤں کے مفاد کی خاطر نافذ ہے اور اسی مفاد کے پیش نظر آج پوری پارلیمنٹ جمہوریت کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے  مفاد کی خاطر ایک ہوگئی ہےکیونکہ ان تمام سیاستدانوں کو پتہ ہے یہ طرز حکومت ختم ہوگیا تو ان لوگوں کو کچھ نہیں ملنا.
 جمہوریت کیا ہے ، جمہوریت  ایک طرز حکومت ہے جس میں عوام کی حکومت ہوتی ہے ۔ جس میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں، یا یوں کہا جاتا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہوتی ہے، جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ بلاواسطہ جمہوریت ، اور بالواسطہ جمہوریت ۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے۔ جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غوروفکر کرنا ممکن ہو
جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔ اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی۔ چنانچہ ہر شخص کے مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کے بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں۔ جو ووٹروں کی طرف سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب صحیح ہو۔
لیکن مملکت خداد پاکستان میں نہ تو حقیقی جمہوریت ہے  اور نہ ہی پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی نمائندے موجود ہیں،  کیونکہ نمائندے منتخب کرنا کا ذریعہ الیکشن ہیں اور حالیہ ہونے والے الیکشن پر بدترین دھاندلی کا الزام ہے   عوام کا  ووٹ کو چوری کئے جانے کا الزام ہے، اور یہ الزام اس صرف الیکشن میں نہیں بلکہ اب تک  ہونے والے تمام الیکشن  میں دھاندلی کا شور سنائی دیتا تھا مگر ہوتا کچھ نہیں تھا .
 موجودہ حکومت کا رویہ  جمہوری نہیں بلکہ  آمرانہ  ہے. ملک کے ترقی یافتہ شہر کے پوش علاقے میں 14 لوگوں کو مار دیا جاۓ اور  انکے لواحقین کو FIR درج کرانے کے لیے لانگ مارچ اور دھرنوں کا سہارا لینا پڑے. کیونکہ اس  واقع میں حکومت کے اعلی حکام کے گریبان تک ہاتھ جاتا ہے اس لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ FIR  درج نا ہو . تو یہاں طاقت کا سر چشمہ عوام ہوئی یا حکمران ؟
پچھلے  14 دن سے جو کچھ اس ملک کے دارلحکومت اسلام آباد میں ہو رہا ہے اس نے پوری قوم کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے. جمہوریت  کا لفظ قوم کو ایک گالی کی طرح سے لگ رہا ہے کہ کیا ہے یہ جمہوریت،  جس کو بچانے کے لیے ملک کے تمام چور ڈاکو مل کر بیٹھ گئے .  یہ ہے جمہوریت جس میں جمہوری نمائندے عوام کا نمائندہ منتخب ہونے کے بعد اپنے حلقوں میں جانے کی زحمت نہیں کرتے   پرانے الیکشن ختم ہونے اور نئے الیکشن ہونے تک یہ تمام عوامی نمائندے عوام سے پرہیز کرتے ہیں کہ کہیں غریب عوام سے مل کر انھیں کوئی عوامی بیماری نا لگ جاۓ .  
ملک میں آمرانہ طرز حکومت ہو یا جمہوری عوام کو کیا فرق پڑتا ہے میرے خیال میں کوئی فرق نہیں پڑتا جب سے ہم نے ہوش سھمبالا ہے  عوام کے حقوق سلب ہوتے ہی نظر آتے ہیں .  ہاں یہ فرق ہوتا ہے کہ آمرانہ نظام میں ہم ایک آدمی پر تنقید ہوتی ہے  ہیں جبکہ جمہوری نظام میں پوری پارٹی   اور اس میں شامل سیاستدانوں پر تنقید کرنی پڑتی  ہے مگر اس تنقید سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ جماعت اپنی باری مکمل کر کہ دوسری جماعت کو موقع دے جاتی ہے ، عوام کی حالت زار پر کوئی فرق نہیں پڑتا  یہ عوام پہلے بھی خواب پر زندہ تھی  اور آئندہ بھی خواب اور امید پر ہی زندہ رہے گی.
یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں عوام کو صحت و صفائی کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں، سرکاری اسپتالوں میں دوائی نہیں ملتی، عدالت سے انصاف نہیں ملتا،  نلکے میں پانی نہیں آتا گھر میں بجلی نہیں آتی ، ہاں اس جمہوریت میں اگر کچھ ملتا ہے تو مہنگائی ملتی ہے ، کرپشن ملتی ہے ،  لاقانونیت  ملتی  ہے ، بیروزگاری ملتی ہے ، یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں غریب  مزید غریب اور امیر مزید امیر ہوتی جا رہی ہے،
تمام سیاستدان اس بات کا شور کر رہے ہیں کہ آئین سے انحراف نہیں کریں گے ، یہ آئین کس نے بنایا  اور کس کے لیے بنایا گیا عوامی نمائندوں نے عوام کے لیے بنایا  لیکن اس آئین کو اس طرح پیش کیا  گیا ہے جیسے یہ آسمانی صحیفہ ہے  اور اس میں  ردوبدل کرنے سے یہ گناہ میں مبتلا ہو جائیں گے .  اس آئین میں عوام کے حقوق  کی جتنی شقات شامل ہیں ان پر تو عمل ہی نہیں کیا جاتا  اور وہ تمام شقا ت جو کہ حکمرانوں کے مفاد میں وہ سب نافذ العمل ہیں اگر کچھ کمی رہ جاتی ہے تو آئین میں ترمیم کر کے پوری کر لی جاتی ہے  نہیں تو اس شق پر عمل ہے نہیں کیا جاتا اس کی مثال ہمیں  پچھلے الیکشن میں دیکھنے کو ملی، اس وقت یہ بات سامنے آئی کہ  آئین کی شق  62 اور 63 کے تحت صادق اورامین  لوگ ہی الیکشن لڑنے کے اہل ہیں  اور تمام لوگوں کے کاغذات  کو اسی تناظر میں پرکھا گیا  اور اگر اس بات کو مان لیا جاۓ  تو موجودہ اسمبلی میں تو سارے لوگ صادق اور امین ہی ہیں لیکن کچھ صادق اور امین جعلی ڈگریوں کے باعث تو اسمبلیوں سے باہر ھوگئے ہیں لیکن باقی جو بچے ہیں ان کی صداقت کے چرچے زبان زدو عام ہیں . یہ صادق اور امینوں کی اسمبلی ہے  اس لئے اس اسمبلی کو نہیں توڑا جا سکتا.
پاکستان کی اکثریت اس بات کی حامی ہے ملک میں تبدیلی آنی چاہئیے لیکن حکومت کی جانب سے مستقل ایک بات سامنے آرہی ہے کہ جمہوریت کو نقصان نہیں ہونے دیا جاۓ گا  ، اب یہ تبدیلی کس طرح آئیے گی ؟ ووٹ کے ذریعے تبدیلی کا عمل تو بااثر لوگ ہونے نہیں دیتے  اور روڈ پر تبدیلی لانے کے دھرنے یا لانگ مارچ ہوں تو کہا جاتا ہے کہ یہ غیر آئنی اور غیر قانونی عمل ہے . اب اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے تو نہیں بھیجے گا جس سے تبدیلی آئی گی.  یہ تمام لوگ جو باری باری حکومت کرتے ہیں یہ کبھی نہیں چاہیں گے ملک میں صاف شفاف الیکشن ہوں اور ملک میں حقیقی عوامی حکومت بن جاۓ. بہرحال الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ  ان لانگ مارچ اور دھرنوں کا جو بھی نتیجہ نکلے وہ پاکستان اور اس کی عوام کے حق میں بہتر ہو.  

Friday 22 August 2014

ایک عام پاکستانی کی سوچ

کیا قیامت آجائے گی اگر نواز شریف ملک کی خاطر استعفیٰ دے دیں گے یا کیا پھر دنیا تباہ ہو جاۓ گی اگر عمران خان لچک کا مظاہرہ کر دیں گے. یہ انا کی جنگ ملک کو کہاں لے جائی گی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے ہر کوئی اپنا تجزیہ اور تبصرہ کر رہا ہے. مگر ہوگا کیا کسی کو معلوم نہیں . نواز شریف ملک کی خدمت کے خاطر کرسی نہیں چھوڑیں گے،مگر انہوں نے ملک کی کیا خدمت کی ہے اس کا سوال کسی بھی عام اور غیر جانبدار پاکستانی کے پاس نہیں ہے. میڈیا کے ذارئع سے یہ ہر پاکستانی کو پتہ ہے کہ اس حکومت نے ملک میں  میٹرو بس اور ٹرین کے منصوبے شروع کئے، کیا اس بس اور ٹرین سروس سے غریب لوگوں کے گھر تک روٹی پہنچائی جائی گی یا لاہور میں آزادی سگنل فری ٹریک سے ملک میں مہنگائی کا سیلاب تھم جاۓ گا.  یا اس سگنل فری ٹریک سے مہنگائی بغیر کسی رکاوٹ کے ملک کی عام عوام کو مزید پریشان کرے گی. اور یوتھ لون  سے نوجوانوں کو قرضہ فراہم کر کے نوجوانوں کو الله تعالیٰ سے جنگ کرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے.  دوسری جانب یہ سوچ بھی ہے کہ کیا   عمران خان   کے پاس جادو کا کوئی چراغ ہے جس سے وہ ملک کے حالات فورا درست کر دیں گے.  کیا یہ تمام لوگ ملک کی خاطر ایک اور سب سے بڑھ کر نیک نہیں ہو سکتے.
نون لیگ کے وزراء میڈیا پر ببانگ دہل چلا رہے ہیں کہ اس ایک سال میں ہم نے پاکستان کی معاشی صورتحال میں انقلاب پیدا کر دیا ہے لیکن اس انقلاب کا اثر پاکستانی عوام پر کیوں نہیں ہو رہا ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے.
ڈاکٹر طاہر القادری بھی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں جو کہ مملکت خداد پاکستان میں سب سے زیادہ کامیاب ہے، لال مسجد کی لاشیں   پرویز مشرف کے سیاسی کیرئیر کو  اختتام کی طرف لے گئی، ذولفقار علی بھٹو کو ایک لاش پھانسی تک لے گئی، اور ذولفقار علی بھٹو کی لاش  ضیاالحق کو ناگہانی موت کی طرف لے گئی،  بینظیر بھٹو کی لاش آصف علی زرداری کو اقتدار کی جانب لے گئی، اور اب یہ ماڈل ٹاؤن سانحے کے لاشیں نواز شریف اور شہباز شریف کو کہاں تک لے جائیں گی اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا. 
عمران خان روز آزادی کا جشن منا رہے ہیں  مگر آزادی کا دن نہیں آرہا .  عوام انتظار میں ہیں کہ یا تو نیا پاکستان بن جاۓ یا ہم لوگ جیسے پرانے پاکستان میں مختلف عوامل سے ڈر ڈر کر  زندگی گزار رہے  تھے اسی طرح گزارتے رہیں.
یہ پارلیمنٹ کی اپوزیشن آج جمہوریت کو بچانے کے لیے ایک ہوگئی ہے، یہ اس وقت کیوں ایک نہیں ہوتی جب پاکستانی عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے مزید دبا دیا جاتا ہے . ملک کو کرپشن کی جانب مزید دھکیلا جاتا ہے. ہاں یہ پارلیمنٹ اس وقت بھی ایک ہو جاتی ہے جب ارکان اسمبلی کے کسی ذاتی مفاد کی بات ہو جیسا کہ ان کی تنخواؤں اور دیگر مراعات کا معاملہ ہو. پاکستان قوم کے مفاد کی بات ہو تو یہ کبھی ایک نہیں ہوتے. اس وقت بھی پورے ملک کے سیاستدان اپنے اپنے مفاد کی خاطر سیاست کر رہے ہیں. کوئی ملک کے لیے نہیں سوچ رہا کیا ملک اہم ہے یا جمہوریت ؟ سب جمہوریت کے لیے تو ایک ہیں مگر ملک کے لیے ایک نہیں ہو سکتے.
پاکستانی عوام مہنگائی کے ہاتھوں ، سٹریٹ کرائمز کے ہاتھوں، دهشت گردوں کے ہاتھوں، کرپشن کے ہاتھوں جکڑی ہوئی ہے. ترسی ہوئی قوم کو  جہاں بھی امید کی کوئی کرن نظر اتی ہے یہ اس طرف چل پڑھتے ہیں. ان لوگوں کا قصور نہیں ہے جو دھرنے میں بیٹھے ہوۓ ہیں قصور تو ان کرپٹ سیاستدانوں کا ہے جنہوں نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا . یہ اپنے مفاد کی خاطر پارٹیوں میں لوٹوں کی طرح  لڑھکتےرهتے  ہیں . مگر پاکستان اور اس کی عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے.
ایک عام پاکستانی یہ سوچتا ہے کہ ملک میں خوشحالی آجاۓ ، مہنگائی ختم ہوجاۓ  ملک میں امن و امان ہو.دہشت گردی کا خاتمہ ہو ہر کوئی چین و سکون کے ساتھ رہیں  مگر یہ سب کیسے ہوگا اس کا جواب نا تو موجودہ حکمرانوں کے پاس ہے نا ہی اپوزیشن کے پاس ہے  اور نا ہی عوام کے پاس ہے  مگر امید پر دنیا قائم ہے، اور ہماری قوم "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ" پر زندہ ہے.   

Wednesday 13 August 2014

عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم - غازی علم دین شہید



مسلمانوں کی سب سے گراں قدر ہستی اور تمام مسلمانوں کی متاع حیات محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے. الله تبارک تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ "مومن وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان و مال، اولاد اور والدین سے زیادہ عزیز سمجھتا ہو. اسی لیے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ناموس رسالت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دینے کی خوہش تو ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے  مگر اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پھنچانا کسی سعادت مند کے نصیب میں ہوتا ہے. ایسے ہی ایک سعادت مند لاہور سے تعلق رکھنے والے علم دین ہیں جنہوں نے 1929میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ایک ہندو راجپال کو جہنم واصل کرکے شہید کا درجہ حاصل کیا.
 جس وقت لاہور میں راجپال نے حضرت محمد رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک گستاخانہ مواد شائع کرکے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کئے  اس وقت برصغیر کے مسلمانوں نے عدالت سے رجوع کیا تاہم عدالتوں نے کوئی خاطر خواہ فیصلہ نہ کیا اور راجپال ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں کر کے بلآخر بری ہوگیا. جس کے بعد عاشقان رسول رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور پورے برصغیر میں جلسے، جلوس اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا.  اسی سلسلے کا ایک مظاہرہ لاہور میں دلی دروازے کے پاس ہو رہا تھا . علم دین کام سے واپسی پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے  مسلمان مقررین راجپال کے خلاف اردو میں تقاریر کر رہے تھے. علم دین پڑھے لکھے نہ ہونے کے باعث کچھ سمجھ نا سکے تاہم ایک مقرر کی جانب سے جب پنجابی میں تقریر کی گئی تو انھے سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ایک ہندو راجپال کی جانب سے حضور پاک محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی ہے  اور مسلمان مقرر کی جانب سے کی گئی تقریر کے ان الفاظ "راجپال واجب القتل ہے " نے علم دین کے دل و دماغ میں طلاطم برپا کر دیا.
 دوسرے دن ایک بزرگ نے خواب میں علم دین کو کہا کہ علم دین سو رہے ہو تمھارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں دشمن اسلام گستاخی کر رہے ہیں اٹھو جلدی کرو . علم دین نے اپنے خواب کا ذکر جب اپنے قریبی دوست شیدے سے کیا توو جواب میں اس نے کہا کہ اس نے بھی یہی خواب دیکھا ہے اور پھر دونوں دوستوں کے درمیان بحث چھڑ گئی کے راجپال کا قتل کون کرے گا   بلآخر اس بحث کا خاتمہ دونوں عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قرعہ اندازی کے ذریعے کیا  اور  قرعہ فال علم دین کے نام نکلا تاہم دوست کے اسرار پر دوبارہ اور تیسری بار قرعہ اندازی کی گئی مگر ہر بار نتیجہ ایک ہی تھا . علم دین کے دوست نے ان سے بغلگیر ہو کر کہا کہ " علم دین تم خوش نصیب ہو جو اس کام کے لئے  منتخب کر لیے گئے ہوکاش یہ کام میرے نصیب میں ہوتا علم دین نے دوست کو جواب دیا کہ " دعا کرنا میں اس کام میں کامیاب ہو جاؤں"
2 اپریل 1929 کو انار کلی میں واقع راج پال کے آفس میں داخل ہو کر علم دین نے گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم  راجپال کو چھری کا وار کر کے جہنم واصل کر کے سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہونے کا ثبوت دے دیا.  وقوع کے بعد لوگوں نے  علم دین کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا . راجپال کے قتل کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ھوگئے . مسلمانوں کی جانب سے علم دین کے حق میں اور ہندوں کی جانب سے ان کی مخالفت میں جلسے اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا. علم دین کے گھر کو پولیس نے گھیرے میں لے لیا . اس مشکل وقت میں علم دین کے قریبی دوست شیدے نے ان کے گھر والوں کا ساتھ نا چھوڑا  اور پولیس کی موجودگی کے باوجود علم دین کے گھر والوں کی خبر گیری کرتے رہے.
عدالتی کاروائی  کے دوران خواجہ فیروز الد ین ایڈووکیٹ ، فرخ حسین اور دیگر مسلمانوں نے علم دین کا بھرپور ساتھ دیا  تاہم سیشن کورٹ نے علم دین کو پھانسی کی سزا سنا دی. اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور علم دین کی جانب سے بانی پاکستان قائد  اعظم  نے عدالت میں دلائل دئیے مگر ہائی کورٹ نے سزا کو برقرار رکھا . غرض یہ کہ ہر متعلقہ ادارے کو اپیل کی گئی مگر نتیجہ بے سود ہی رہا. اور بلآخر  برمنگھم پیلس کی جانب سے بھی سزا کو برقرار ہی رکھا گیا.
سزا کے بعد لاہور کے خراب حالات کے پیش نظر 4 اکتوبر 1929 کو علم دین کو میانوالی کی جیل منتقل کر دیا گیا . جیل اہلکاروں اور قیدیوں کے مطابق جیل میں موجود قیدی علم دین کی بہت عزت کرتے تھے اور جب کوئی قیدی بیمار ہو جاتا تھا تو علم دین کےہاتھ سے پانی پی کر صحت یاب ہو جاتا تھا.  ایک سپاہی جو ان کی نگرانی پر مامور تھا  اس نے دیکھا کے علم دین جیل میں موجود نہیں ہیں اس نے  اعلی حکام کو فوری اطلاع دی جب انہوں نے آکر دیکھا تو  علم دین جیل میں موجود تھے. اپنے دوست شیدے سے جیل میں ملاقات کے دوران انہوں نے کہا کہ راجپال کا قاتل میں ہوں لوگ کہتے ہیں کہ میں نے موت کے ڈر  سے عدالت میں صحتِ جرم سے انکار کیا   لیکن میں نے موت کے ڈر سے نہیں اپنے بزرگوں کے کہنے پر عدالت میں انکار کیا تھا.  اپنے عزیز و اقارب  سے آخری ملاقات میں خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ ان لوگوں کو بتایا کہ  میں نے دعا مانگی تھی کے حضرت موسی علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو  اور آج وہ مجھے خواب میں ملے اور پوچھا علم دین کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا حضرت اپ کلیم اللہ ہیں  خدا سے کہیں کہ عدالت میں اپنے والد کی وجہ سے جو جھوٹ بولا ہے  کہ راجپال کا قتل میں نہیں کیا . اللہ تعالیٰ میرا وہ گناہ معاف کردے  چنانچہ حضرت موسیٰ  علیہ  السلام نے مجھے خوشخبری دی کے میرا وہ گناہ معاف کر دیا گیا ہے. اسی وجہ سے میں آج اتنا خوش ہوں.
میانوالی جیل میں  31 اکتوبر 1929 کو عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تختہ دار پر لٹکا کر فانی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف روانہ کر دیا گیا . تختہ دار پر پوچھی گئی آخری خواہش  کے جواب میں شہید علم دین نے کہا    کو میں چاہتا ہوں کہ پھانسی کا پھندا خود اپنا گلے میں ڈالوں  اورمیرے ہاتھ پاؤں نا باندھے جائیں تاکہ شدید اذیت سے دوچار ہو کر اگلے جہاں میں محبوب خدا کا قرب حاصل کر سکوں تاہم دونوں خواہشات کو رد کر دیا گیا.

پھانسی کے وقت وہاں موجود لوگوں کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ میں حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لیے راج پال کو قتل کیا تم گواہ رہوں کہ میں عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم میں کلمہ شہادت پڑھ کر جا ن آفریں کے سپرد کر رہا ہوں.  اور پھر کلمہ شہادت پڑھا اور اپنی جان کو ناموس رسالت صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا. 
اعلیٰ حکام نے حالات خراب ہونے کے ڈر سے شہید کی تدفین غسل کے بناہ ہی قیدیوں کے قبرستان میں کردی . حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خاطر جان قربان کرنے والے کی اس طرح تدفین کی خبر جب مسلمانوں کی ہوئی تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا . جلسوں میں مسلمان مقررین نے مسلمانوں کے قلوب کو ایسا گرما یا  کہ وہ شہید علم دین کا لاشہ حاصل کرنے کے خاطر مر مٹنے کو تیار ہوگئے . اسی دوران مسلمانوں کے وفد نے جو کہ علامہ اقبال، سر شفیع، میاں عبدالعزیز ، مولانا غلام محی الدین قصوری پر مشتمل تھا نے ڈپٹی کمشنر ، کمشنر  اور گورنر پنجاب سے ملاقات کی . اور کچھ شرائط کے بعد لاش کی حوالگی کا معاملہ طے پاگیا.  حکام کی جانب سے پھانسی کے 13 دن بعد علم دین شہید کی لاش کو میانوالی سے لاہور لاکر مسلمان معززین کے حوالے کر دی. چوبرجی کے میدان میں لاکھوں فرزاندن اسلام نے شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کی . جنازے کے راستے میں خواتین اسلام گھروں کی چھتوں پر کلام اللہ کی تلاوت کر رہی تھی  اور مرد حضرات جنازے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوۓ کلمہ طیبہ  کا ورد ، نعرہ تکبیر اور علم دین شہید زندہ آباد کے نعرے بلند کر رہے تھے.  جنازہ پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھی. تدفین سے قبل ہی قبر کو پھولوں سے بھر کر پھولوں کا بستر بنا دیا گیا اور تدفین کے بعد قبر کو پھولوں سے لاد دیا گیا تھا.

بلاشبہ یہ مقام ایک سچے عاشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہی مل سکتا تھا، جس نے اپنی جان کی پروا نہ  کرتے ہوۓ   خود کو حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا. وہ علم دین  جس کو کچھ عرصہ  قبل تک چند  لوگ  ہی جانتے تھے اس واقعہ کے بعد   آج مسلم امہ اسے علم دین شہید اور سچے عاشق رسول  صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے نام سے جانتی ہے. اور رہتی دنیا تک  غازی علم دین شہید کا نام عاشق رسول  اور حرمت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے والوں کی فہرست میں چمکتا دمکتا رہے گا.