Monday 28 October 2013

ملالہ حقیقت یا ڈرامہ



ملالہ حقیقت یا ڈرامہ
شہرت کے دوام عروج پر پہنچنے والی ملالہ یوسفزئی نے امن کے لیے ایسا کیا کام کیا جو اسے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سےکئی ایوارڈز دئیے گۓ یہ ایسی گتھی ہے جسے سلجھانے کی کوشش کئی لوگوں نے اپنے مفروضے اور اندازوں کی مدد سے  کی مگر یہ ایک ایسی پہیلی ہے جس کا جواب ملالہ نے خود ہی اپنی کتاب I am Malala میں دے دیا ہے . پاکستان اور اسلام کے خلاف بولنے کے صلے میں بین الاقوامی سطح پر تو ملالہ کی شہرت میں تو اضافہ ہو رہا ہے مگر پاکستان کی سطح پر اس کی شہرت بتدریج گر رہی ہے  اور سوشل میڈیا پر جس طرح سے ملالہ پر تنقید ہو رہی ہے اس سے یہ لگ رہا ہے کہ پاکستانی عوام نے ملالہ اور اس کے والد ضیاء الدین کو ایک امریکن ایجنٹ کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے.
ملالہ یوسفزئی کو شہرت ملنے کا آغاز بی بی سی کی ویب سائٹ پر گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھنے کے بعد ہوا  اور اس شہرت کو ہوا دینے میں ہمارے اور مغربی میڈیا نے بھرپور کردار ادا کیا مگر بعد میں مختلف ذریعے سے یہ بات سامنے آئی کہ گل مکئی نے نہیں بلکہ بی بی سی کے نمائندے عبد الحیئ کاکڑ نے لکھی اور اس کے لئےملالہ اور اس کے والد سے اجازت لینے کے ساتھ ان کو  معاوضہ بھی ادا کیا گیا تھا . 
ملالہ کی ڈائری کے ویب سائٹ پر شائع ہونے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کے ملالہ کی ڈائری کے بعد سوات اور اس سے ملحقہ علاقے کی لڑکیوں نے اسکول اور کالج جانا شروع کیا حالانکہ یہ تاثر بلکل غلط ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سوات میں بچیوں کے اسکول اور کالج جانے کی شرح میں تھوڑا تو اضافہ ہوتا سوات میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی شرح جتنے پہلے تھی آج بھی کم و بیش اتنی ہی ہے .
ملالہ کو  شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں اس گولی نے بڑا اہم کردار ادا کیا جو کہ اس کے سر پر لگی  اور گردن تک اتر گئی مگر کمال ہے کہ ملالہ کو صرف بولنے میں تھوڑی پرابلم ہوئی اور باقی سب خیر ہوگیا. ملالہ کو گولی لگی یا نہیں یہ الگ بحث ہے  مگر اس حملے کے بعد پاکستانی عوام کے دل میں ملالہ کے دل میں ہمدردی کے جذبات ضرور جاگے تھے مگر جس سے طرح سے امریکی صدر بارک اباما جنہوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد معافی مانگنے سے یکسر انکار کر دیا تھا ، نے جس طرح سے ملالہ پر حملے کی مذمت کی  اور راتوں رات ملالہ کی انگلینڈ روانگی ہوئی اس نے لوگوں کے دل شکوک و شہبات کو جنم دیا اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکہ کے لئے کام کرنے والوں اور امریکی مفادات کے لیے ملکی وقار اور عزت کا سودا کرنے والوں کی اہمیت امریکہ کی نظر میں پاکستان کی فوج سے زیادہ ہے .اس حملے کے بعد لوگوں نے سوشل میڈیا پر ملالہ اور اس کے والد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور دونوں کو امریکی ایجنٹ قرار دیکر اس حملے کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا.
ملالہ متنازع شخصیت کی تو شروع  مالک تھی مگر رہی سہی کسر ملالہ کی کتاب نے پوری کر دی . کتاب پڑھ کر لگا کہ یہ پاکستان اور اسلام دشمن لوگوں کی آواز ہے .جس طرح سے اس کتاب میں سلمان رشدی  کی حمایت ، پاک بھارت جنگ، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے واقعہ ، ناموس رسالت کے قانون  اور ملالہ کے والد کی جانب سے پاکستان کے یوم آزادی کے دن سیاہ پٹیاں باندھنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے یہ بات عیاں ہوگئ کہ یہ کتاب ایک سولہ سالہ بچی کی آواز نہیں بلکہ  یہ سب مغرب کی اسلام دشمن عناصر کی جانب سے کی جانے والی کوشش ہے  اور ملالہ اور اس کے والد  صرف ایک مہرے کی  طرح سے کام کر رہے ہیں .
اب اگر  بات کریں ملالہ کے آبائی شہر سوات کی، تو سوات کے لوگ بھی ملالہ سے ناخوش ہی نظر آتے ہیں  اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے وہ واقعہ ہی کافی ہے جب سوات میں موجود سیدہ گرلز کالج کا نام بدل کر ملالہ کے نام سے منسوب کیا گیا تو سوات کی تاریخ میں پہلی بار کالج کی طالبات  نے روڈ پر نکل کر بھرپور احتجاج کیا جس کے باعث مجبور ہو کر انتظامیہ کو نام واپس تبدیل کرنا پڑا. اگر سوات کی عوام کے دل میں ملالہ کے لیے عزت و احترام ہوتا تو یہ واقعہ ہی نہیں ہوتا .
ملالہ کی نوبل انعام کے لئے  نامزدگی ،  اقوام متحدہ میں خطاب اور  مختلف فورم  پر ایوارڈ کے ملنے میں مغرب کی حمایت ، پاکستان  اور اسلام دشمن زبان کے علاوہ بظاہر تو اور کوئی خاص بات نظر نہیں آتی ، مگر جس طرح سے ہمارے میڈیا نے اسے بھرپور کوریج دی اس نے میڈیا کی مغرب نظری کو بھی ہمیشہ کی طرح واضح کیا میڈیا نے تو یہ بات ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ ملالہ پاکستان کا سرمایہ ہے مگر اس کے برعکس سوشل میڈیا نے بھرپور تنقید اور مخالفت کر کہ یہ ثابت کیا کہ پاکستانی عوام کے دل میں ملالہ کے لیے کوئی ہمدردی باقی نہیں بچی ہے.

Monday 14 October 2013

عید الاضحیٰ – الله کی خوشنودی حاصل کرنے کا دن



جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لاۓ تواہل مدینہ کے لیے دودن ایسے تھے جس میں وہ لھو لعب کیا کرتے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( بلاشبہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اس سے بہتر اور  اچھے دن دن عطاکیے ہیں وہ عید الفطر اورعیدالاضحی کے دن ہیں ۔ تواللہ تعالٰی نے وہ لھولعب کے دو دن ذکر وشکراورمغفرت درگزر میں بدل دیے .
 عید الاضحیٰ ذوالحج کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اس دن مسلمان کعبۃ اللہ کا حج بھی کرتے ہیں۔  عیدالاضحی ہے جو کہ ذی الحج کے دن میں آتی اوریہ دونوں عیدوں میں بڑی اورافضل عیدہے اورحج کے مکمل ہونے کے بعدآتی ہے جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تواللہ تعالٰی انہیں معاف کردیتا ہے۔
اس لیے کہ حج کی تکمیل یوم عرفہ میں وقوف عرفہ پرہوتی ہے جوکہ حج کاایک عظیم رکن ہے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے. حج عرفہ ہی ہے یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالٰی آگ سے آزادی دیتے ہیں ۔ تواس لیے اس سے اگلے دن سب مسلمانوں حاجی اورغیرحاجی سب کے لیے عید ہوتی ہے ۔ اس دن اللہ تعالٰی کے تقرب کے لیے ہر صاحب نصاب شخص پر قربانی کرنا واجب  ہے ۔ جو صاحب نصاب ہو کر بھی قربانی نہ کرے اس کے لیے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے کہ جس میں وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب   ہر گز نہ آئے (ابن ماجہ)
یہ دن اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے بہترین دن ہےاللہ تعالٰی کے ہاں سب سے افضل اوربہتر دن یوم النحر ( عیدالاضحی ) کا دن ہے اوروہ حج اکبروالا دن ہے جس کا ذکر حدیث میں بھی ملتا ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یقینا یوم النحر اللہ تعالٰی کے ہاں بہترین دن ہے (سنن ابوداود حدیث نمبر 1765 )۔
حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحر میں ابن آدم کا کوئی  عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (ےیعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سنگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک قبول ہو جاتا ہے لہٰذا اسے خوش دلی سے کرو (ترمذی ، ابن ماجہ)
قربانی کا مقصد یہ ہے کہ خالص اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے  لیے قربانی کی جاۓ نہ کہ نمود و نمائش اور دنیا دکھاوے  کے لیے قربانی کی جاۓ .عیدالاضحی ہمیں اپنا سب کچھ الله کی راہ میں قربان کرنے کا درس دیتی ہے. لیکن  آج کل لوگ دنیا دکھاوے کے لیے مہنگا سے مہنگا سے جانور خریدتے ہیں  اور اس کی تشہیر کرتے ہیں قربانی کے جانور کے ساتھ فوٹو اور ویڈیوز بنوا کر مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر اپ لوڈ کرتے ہیں جو کو سراسر غلط ہے . اسلام میں ویسے ہی تصویر بنانا گناہ کے زمرہ میں آتا ہے . لیکن لوگ اس اسلامی شعار کے ساتھ گناہ کو شامل کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ اس میں بھی اپنی تشہیر کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے سے دیتے. یہ تو وہ عمل ہے جو کہ اگر الله کی رضا کے لیے کیا جاۓ تو آخرت میں نامہ اعمال میں قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی دی جاۓ گی .  صحابہ اکرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی علیہ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں ؟  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے لوگوں نے عرض کیا  یا رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہمارے لیے کیا ثواب ہے ؟ فرمایا ہر بال کے برابر نیکی ہے عرض کی اون کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا! اون کے ہر بال کے بدلے بھی نیکی ہے (ابن ماجہ).
اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے ، الله تعالیٰ اپنے بندے کی نیت دیکھتا ہے  کہ میرے بندے نے کس نیت سے قربانی کی ہے  خالص اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کی نیت ہونی چاہئیے قرآن کریم  میں الله تبارک تعالیٰ کا ارشادہے کے الله تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے  اور نہ  خون بلکہ اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے. 


قربانی کے وقت جانورکے گلے پر چھری پھیرتے وقت ہمیں اپنے نفس اور خواہشات پر بھی چھری پھیرنی چاہئیے  جس کام کا حکم الله تعالیٰ نے دیا ہے اس کو کرنا چاہئیے اور جس کام سے ہمیں روکا گیا ہے ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئیے . اب یہ ہم لوگوں پر منحصر ہے کے اس دن اللہ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں یا نمودونمائش کر کہ دنیا میں اپنی تشہیر کریں. الله ہماری نیتوں کو درست کرے اور ہم سب لوگوں کو ہدایت نصیب فرماۓ  اور ساتھ ہی نیک اعمال کرنے اور برائی سے روکنے کی توفیق دے (آمین).

Monday 7 October 2013

زکوٰۃ ، مذہبی اورسماجی فرض



زکوٰۃ ، مذہبی اورسماجی فرض
عربی زبان میں زکوٰۃ کے معنی ہیں کسی چیز کو گندگی سے، آلائشوں سے اور نجاست سے پاک کرنا، زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ کا نام اسی لیے دیا گیا ہے کہ وہ انسان کے مال کو پاک کر دیتی ہے اور اس مال میں الله کے رحمت و برکت شامل ہو جاتی ہے . اور جس مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے وہ ناپاک اور گندہ رہتا ہے. زکوٰۃ  اسلام کے پانچ بنیادی  ارکان میں سے ایک ہے، زکوٰۃ کی فرضیت قرآن میں نماز کے ساتھ ساتھ آئی ہے  قران کریم میں ہے کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کی کیا اہمیت ہے. سب سے بڑھ  کر یہ کہ قرآن کریم میں تقریبا 32 مقامات پر زکوٰۃ کا ذکر فرمایا ہے اور مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس اہم فریضے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے. مگر جس سے طرح سےمسلمان  دنیاوی کاموں میں لگ کر الله کے دئیے گۓ احکامات سے چشم پوشی کرنے لگے ہیں بلکل اسی طرح سے مختلف مفروضوں کی بناء پر زکوٰۃ ادا کرنے سے کترانے لگے  ہیں . صرف یہ سوچ کر زکوٰۃ ادا نہیں کرتے کہ شائد زکوٰۃ ادا کرنے سے ان کے مال و دولت میں کوئی کمی آجاۓ گی حالانکہ ایسا بلکل نہیں ہے. جس سے طرح سے درخت کی تراش خراش کرنے کے بعد وہ پھلتا پھولتا ہے بلکل اسی طرح زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد مال و دولت میں بھی اضافہ ہوتا ہے. انسان زکوٰۃ کی مد میں جتنا خرچ کرتا ہے اس کے مال میں اتنی ہی زیادہ برکت ہوتی ہے . زکوٰۃ ادا کرنے سے مفلسی نہیں آتی .
آج کی دنیا مادہ پرست دنیا ہے، ہر کام میں نفع نقصان دیکھا جاتا ہے  بظاہر زکوٰۃ دینے سے انسان کو یہ لگتا ہے کہ اس کے مال میں کوئی کمی ہوگئی مگر عملا اسے فائدہ ہوتا ہے. جوکہ وقتی طور پر انسان کو نظر نہیں آتا . جس کے باعث بھی وہ زکوٰۃ ادا کرنے سے کتراتا ہے.
قران کریم میں الله تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "فلاح پاتے ہیں جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں". ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ "جو کچھ تم  خرچ کرو گے الله تعالیٰ اس کی جگہ اور دے گا اور وہ بہتر روزی دینے والا ہے " زکوٰۃ کے حوالے سے حضرت جابر  رضی الله  تعالیٰ سے مروی ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی بے شک الله تعالیٰ نے اس سے شر دور فرما دیا".
الله تعالیٰ نے زکوٰۃ کا فریضہ ایسا رکھا ہے کہ اس کا اصل مقصد تو اللہ تبارک تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنا ہے دوسری جانب جو انسان زکوٰۃ ادا کرتا ہے اس کے دل سے اللہ تعالیٰ مال و دولت کی محبت کو ختم فرما دیتے ہیں لہذا جس کے دل میں مال کی محبت ہوگی وہ زکوٰۃ ادا کرنے سے کترائے گا  کیونکہ بخل اور مال کی محبت انسان کی بدترین کمزوریوں میں سے ایک ہے اور اس کمزوری کا علاج الله تبارک تعالیٰ نے زکوٰۃ ادا کرنے میں پوشیدہ رکھا ہے . زکوٰۃ ادا کرنے کا دوسرا اہم مقصد یہ بھی ہے کہ جو  غریب لوگ  شرمندگی کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے  ان کی مدد ہوجانے.  اگر پاکستان کے  وہ تمام لوگ جن پر زکوٰۃ فرض ہے وہ صحیح طریقے سے  زکوٰۃ ادا کریں  تو اس اسے یقینا پاکستان سے غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا  کیونکہ کافی لوگ تو زکوٰۃ ادا ہی نہیں کرتے اور جو ادا کرتے ہیں ان میں سے بھی اکثر بغیر کسی حساب کتاب کے  اندازے سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں غریبوں کو جو فائدہ پہنچنا چاہئیے وہ ان کو نہیں پہنچ رہا .
زکوٰۃ  محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دی جاتی ہے ۔جن سے ان کی ضرورتیں اور حاجات پوری ہوتی ہیں ۔اگر تمام مالدار اپنی زکوٰۃ نکالتے رہیں او رصحیح مقامات پر خرچ کرتے رہیں تو یقینا تمام غرباء کی ضروریات پوری ہوجائیں گی ۔اس سے معاشرے میں بگاڑ اور فساد بھی  بہت حد تک ختم ہوجائے گا.
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے حوالے سے بہت سخت وعید ہیں. حدیث پاک حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں ، جس کے پاس سونا چاندی ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ نہ دے   تو قیامت کے دن اس سونے چاندی کی تختیاں بنا کر جہنم کی آگ میں تپائیں گے پھر ان سے اس شخص کی پیشانی، کروٹ، اور پیٹھ پر داغ دیں  گے جب وہ تختیاں ٹھنڈی ہو جائیں گی تو پھر انھیں تپائیں گے. قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہے یونہی کرتے رہیں  گے یہاں تک تمام مخلوق کا حساب ہوچکے.
شریعت نے زکوٰۃ کا نصاب مقرر کر دیا ہے جس شخص کے پاس وہ نصاب ہوگا اس پر زکوٰۃ فرض ہو جائے گی.  ہم میں سے اکثر لوگوں کا زکوٰۃ کا صحیح نصاب کا پتہ نہیں ہوتا  جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر زکوٰۃ فرض ہی نہیں ہے . حالانکہ بہتر تو یہ ہے کہ سب لوگ زکوٰۃ کے صحیح نصاب کا پتہ کرکے زکوٰۃ کو صحیح ادا کریں.

Sunday 6 October 2013

تبدیلی کس طرح ممکن ہے

تبدیلی کس طرح ممکن ہے

ایک پر فریب اور دِلکش نعرا جس کی مدد سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے وہ تبدیلی کا نعرا. اس نعرے کی بازگشت سب سے پہلے ہمیں امریکا کے صدارتی اتخابات میں سنائی دی جب امریکیوں نے یہ نعرا لگا کر تاریخ میں پہلی بار بارک اباما کو امریکا کا صدر منتخب کرا لیا ان کے منتخب ہونے کے بعد بھی مسلم امہ کو کیا فائدہ پہنچا ہمیں تو نہیں لگتا کے ان کے انتخاب کے بعد مسلمانوں کو لیے کوئی تبدیلی آئ ہو امریکا پہلے بھی مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لیے"تقسیم کرو اور حکومت کرو " کے فارمولے پر عمل کر رہا تھا اور آج بھی یہی کر رہا ہے اور شاید اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک مسلمانوں میں میر جعفر اور میر صادق جیسے لوگ موجود رہیں گے اور امریکا کے آلہ کار بنتے رہیں گے. ہاں یہ بات الگ ہے کے امریکیوں کے لیے کوئی تبدیلی آی ہو تو وہ ہمارے لیے ایسے ہی ہے جیسے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا.
پاکستان میں سب سے زیادہ اس نعرے کی گونج ہمیں حالیہ الیکشن میں سنائی دی جس میں ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی نظر آی کے ہم لائیں گے تبدیلی مگر الیکشن ختم ہونے کے کئی ماہ بعد بھی تبدیلی کے نعرے صرف نعرے کی حد تک ہی نظر آرہے ہیں تبدیلی کہیں کوئی خاص نظر نہیں آرہی ہے. کیا تبدیلی صرف نعروں کی مدد سے آجاتی ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کے تبدیلی کیوں نہیں آتی ؟ اس کی وجہ بظاہر جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب تبدیلی کا نعرا لگاتے ہیں مگر خود تبدیل نہیں ہوتے کیا ہم نے خود کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے کے تبدیلی لانے کے کے لیے ہم نے خود کیا کیا. کیا ہم نے خود کو تبدیل کیا ؟ یا ہم نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی کی ؟ نہیں جناب ہم لوگ ایسی کوئی کوشِش ہی نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی دوسرا کوشِش کرتا نظر آے تو ہم لوگ اس پر ہنسنے اور طنز کرنے سے باز نہیں آتے.
ہم میں سے اکثر لوگ چند سیکنڈ سگنل پر روکنا گوارا نہیں کرتے اپنا گھر صاف کر کے سارا کچرا گھر کے باہر ڈھیر کی صورت میں جمع کر دیں گے گھر بنانے میں لاکھوں روپے خرچ کر دیں گے مگر کچرا اٹھانے کے لیے دو سو روپے خرچ نہیں کریں گے. پبلک مقامات پر تھوک پھینکنے، کچرا پھینکنے، سگریٹ پینے کے واقعات تقریبا ہم سب نے ہی دیکھ رکھے ہیں اور ہم میں سے متعدد لوگ ایسا کر بھی چکے ہونگے. کسی تہوار کے موقع پر بغیر سلنسر موٹر سائیکل چلانا تو جیسے ایک فیشن بن گیا ہے. سڑک پر ریس لگانا ون وہیلنگ کرنا تو عام سی بات ہے. ان میں سے کسی کو اگر روکا جاۓ تو جس قسم کے جوابات سے واسطہ پڑتا ہے وہ سنے کے بعد شاید ہی کوئی دوبارہ روکنے کی جسارت کرے گا.
تبدیلی صرف نعرے لگانے سے نہیں آتی بلکہ تبدیلی لانے کے لیے پاکستان میں رہنے والے ہر رنگ و نسل کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی. ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا کہ یہ ملک ہمارا گھر ہے. ہمیں پاکستان کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا یہ سوچ کر نہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا بلکہ یہ سوچ کرکہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا. اگر ہم لوگوں نے یہ کر لیا تو مجھے امید ہے کہ ہم لوگوں کو تبدیلی کا نعرا لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ تبدیلی تو آچکی ہوگی.
(Irfan Ahmed Rajput)

Tuesday 1 October 2013

جہیز ایک مہذب بھیک



آج کتنی جوانیاں گھر بیٹھے مرجھا چکی ہیں؟ آج کتنی عصمتیں سر بازار نیلام ہوتی ہیں ؟ آج کتنے نوجوان اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کر رہے ہیں؟ اگر جہیز کی لعنت کو چھوڑ کر نکاح کو آسان اور سستا نہ بنایا گیا تو ہر طرف بے راہ روی کہ ایسا سیلاب آے گا جو سب کچھ بہا کر لے جاۓ گا. آج ہمارے مسلمان طبقے نے جہیز کی لعنت کو گلے کا طوق بنا لیا ہے. انھیں صرف کافرانہ اور ظالمانہ رسموں کی فکر ہے. جہیز کے نام پر شادی بیاہ میں جو خرافات اور مشرکانہ رسوم رائج ہیں ان کا اسلام سے دور تک کوئی تعلق نہیں. جہیز کے نام پر نقدی اور لین دین غیر مسلموں کا طریقہ ہے یہ خالص ہندوانہ رسم ہے. حقیقت تو یہ ہے جہیز ایک لعنت ہے اور ہم مسلمانوں نے اس لعنت کو کو تہذیب و تمدن سمجھ کر قبول کر لیا ہے اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس لعنت نے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے.
اس میں شبہ نہیں ہے کہ جہیز کی موجودہ شکل ایک تباہ کن رسم ہو کر رہ گئی ہے لڑکی کو ماں باپ اپنی محبت و شفقت میں رخصت ہوتے وقت جو کچھ دیتے ہیں وہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے مگر ہندوانہ رسم کی دیکھا دیکھی اب مسلمانوں میں بھی یہ رسم ایک مطالبہ کی صورت اختیار کر چکی ہے جہیز کے مطالبہ کو پورا کرنے کے لیے آج کتنے گھر اجڑ چکے ہیں. لڑکی کی پیدائش جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خوش بختی کی علامت ہے اس کو اس مطالبے نے بدبختی میں تبدیل کر دیا ہے . لڑکی کی پیدائش رحمت ہوتی ہے مگر لالچی لوگ اسے زحمت میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں .
حیرت تو اس پر ہے کے لڑکی اپنے والدین سے کچھ مطالبہ کرے تو کر سکتی ہے کہ ماں باپ سے فرمائش کرنا اس کا پیدائشی حق ہے اگرچہ اسے مطالبہ کرتے وقت واپنے والدین کی بساط و وسعت کا خیال کرنا بھی ضروری ہے مگر یہ ہونے والے داماد اور  اس کے گھر والوں کو یہ  حق کس نے دیا کہ  جہیز کے نام پر لڑکی کے گھر والوں سے فرمائش کریں. یہ تو ایک قسم کی مہذب بھیک ہوگئی  جسے رسم و رواج کے نام پر قبول کیا جا رہا ہے. اسلام دو ہی صورتوں میں مانگنے کی اجازت دیتا ہے یا تو سائل کا حق دوسرے سے متعلق ہو یا پھر سائل اتنا تنگدست ہو کہ اس کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہو اور سوال کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو اس کا سوال کرنا جائز ہے.  ظاہر ہے ہونے والے داماد کا ہونے والی بیوی یا سسرال پر کوئی حق تو ہوتا نہیں جس کا مطالبہ اس کے لیے جائز ہو لہٰذا اب دوسری بات تنگدستی والی رہ جاتی ہے جب کے سماج میں اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ داماد تنگدستی ظاہر کرکہ سسرال سے کچھ تقاضا کرے حالانکہ بقدر ضرورت سوال کرنا اسلام میں جائز ہے . لیکن اگر دونوں صورتیں نہیں توایک قبیح فعل ہے. حدیث مبارکہ میں ہے کہ  
"حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے وہ انگارے کا سوار کرتا ہے تو چاہے زیادہ مانگے یا کام (ابن ماجہ) "
جہیز کی رسم ایک ناسور کی طرح معاشرے میں پھیل چکی ہیں  جس کے باعث دیگر برائیاں ، خود کشی، چوری، طلاق، پرتشد اموات، دھوکہ دہی اور دیگرکئی سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں. بے چارے والدین سود پر قرض حاصل کر کہ اپنی لڑکیوں کو بیاہتے ہیں اور زندگی بھر سود کے جال میں پھنس جاتے ہیں مگر پھر بھی دامادوں کی فرمائشوں کو پورا کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح بیٹی کا گھر بنا رہے.
بہن یا بیٹی کو جہیزدینے  کے لیے چوری یا ڈاکہ ڈالنے اور دھوکہ دہی کے واقعات ہم نے سن رکھے ہیں. بسا اوقات لڑکیوں کی جانب سے خود کشی کے واقعات، سسرال کی جانب سے بہوؤں کو آگ میں جلانے اور دیگر پرتشدد طریقوں سے جان سے مارنے کے واقعات میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں. جہیز کم لانے یا نہ لانے کے باعث طلاق کے واقعات بھی زبان زدوعام ہیں. جہیز کی اس لعنت کے باعث ہونے والے ان جرائم کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی، معاشرے پر حکومت پر یا ان لوگوں پر جنہوں نے جہیز کا مطالبہ کیا؟ تینوں میں سے کوئی بھی اس کہ ذمہ داری قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی ہمارا ملکی قانون کچھ کر سکے گا. ہاں یہ ضرور ہوگا کہ منذ رجہ بالا کسی بھی امر کی وجہ سے لڑکی کا خاندان مزیدکرب اور  پریشانیوں میں ضرور مبتلا ہوجاۓ گا. اورالله کے سوا دنیا میں اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا.
جہیز کی رسم انفرادی نہیں اجتماعی معاشرتی مسئلہ ہے. جس سے واقف تو ہم سب ہیں مگر اس کھیں چرانا اور اس مسئلے سے پہلوتی بھی ہم ہی لوگ کرتے ہیں .  موجودہ سماج میں لڑکیوں کی شادی کے لیے بہتر رشتے کا انتخاب مانگ و مطالبات، بھاری رقوم، قیمتی چیزوں اور جائیداد کے دینے پر منحصر ہوگیا ہے. لڑکی کی شرافت، دینداری، اخلاق و سیرت دیکھنے کا معیار باقی نہیں رہا. بلکہ لڑکے والوں کی نظر اس پر ہوتی ہے کہ کس گھر سے زیادہ جہیز ملے گا. بعض اوقات جہیز مانگنے کے ساتھ تو لڑکے کو کاروبار کراکر دینے کی شرط عائد کردی جاتی ہے.
ایک مرد کی یہ شان نہیں کہ وہ دوسروں سے مال کا ناجائز مطالبہ کرے اور دوسرے کے مال کو جہیز کے منحوس نام پر بٹورنے کی کوشش کرے اور جہیز کے نام پر مال و دولت، کار، موٹر سائکل ، فرج ، ٹی وی اور دیگر قسم کے مطالبات کرکے لڑکی کے گھر والوں کو پریشان کرے بلکہ مرد کی تو یہ شان ہے کہ اپنی زورو بازو کے بل بوتے پر کمائے اور اپنی منکوحہ اور اولاد کو بہتر زندگی دے.
رسم جہیز قابل لعنت ہے اور انتہائی حقارت سے دیکھے جانے کے قابل ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے یہ فعل نہ سنت ہے نہ واجب اور اسلامی معاشرے میں اس کی نہ کوئی اصلیت ہے نہ حقیقت، بلکہ یہ معاشرے کے لیے ایک ناسور ہے.  اگر جہیز کی لعنت کا خاتمہ ہوجاۓ اور شادیاں سستی ہوجائیں تو کئی نوجوان بچیوں کے چہرے ان گنت خدشات سے پاک ہوجائیں گے اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہوکر اپنے فرائض کو ادا کر سکیں گے.