Friday 22 August 2014

ایک عام پاکستانی کی سوچ

کیا قیامت آجائے گی اگر نواز شریف ملک کی خاطر استعفیٰ دے دیں گے یا کیا پھر دنیا تباہ ہو جاۓ گی اگر عمران خان لچک کا مظاہرہ کر دیں گے. یہ انا کی جنگ ملک کو کہاں لے جائی گی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے ہر کوئی اپنا تجزیہ اور تبصرہ کر رہا ہے. مگر ہوگا کیا کسی کو معلوم نہیں . نواز شریف ملک کی خدمت کے خاطر کرسی نہیں چھوڑیں گے،مگر انہوں نے ملک کی کیا خدمت کی ہے اس کا سوال کسی بھی عام اور غیر جانبدار پاکستانی کے پاس نہیں ہے. میڈیا کے ذارئع سے یہ ہر پاکستانی کو پتہ ہے کہ اس حکومت نے ملک میں  میٹرو بس اور ٹرین کے منصوبے شروع کئے، کیا اس بس اور ٹرین سروس سے غریب لوگوں کے گھر تک روٹی پہنچائی جائی گی یا لاہور میں آزادی سگنل فری ٹریک سے ملک میں مہنگائی کا سیلاب تھم جاۓ گا.  یا اس سگنل فری ٹریک سے مہنگائی بغیر کسی رکاوٹ کے ملک کی عام عوام کو مزید پریشان کرے گی. اور یوتھ لون  سے نوجوانوں کو قرضہ فراہم کر کے نوجوانوں کو الله تعالیٰ سے جنگ کرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے.  دوسری جانب یہ سوچ بھی ہے کہ کیا   عمران خان   کے پاس جادو کا کوئی چراغ ہے جس سے وہ ملک کے حالات فورا درست کر دیں گے.  کیا یہ تمام لوگ ملک کی خاطر ایک اور سب سے بڑھ کر نیک نہیں ہو سکتے.
نون لیگ کے وزراء میڈیا پر ببانگ دہل چلا رہے ہیں کہ اس ایک سال میں ہم نے پاکستان کی معاشی صورتحال میں انقلاب پیدا کر دیا ہے لیکن اس انقلاب کا اثر پاکستانی عوام پر کیوں نہیں ہو رہا ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے.
ڈاکٹر طاہر القادری بھی لاشوں پر سیاست کر رہے ہیں جو کہ مملکت خداد پاکستان میں سب سے زیادہ کامیاب ہے، لال مسجد کی لاشیں   پرویز مشرف کے سیاسی کیرئیر کو  اختتام کی طرف لے گئی، ذولفقار علی بھٹو کو ایک لاش پھانسی تک لے گئی، اور ذولفقار علی بھٹو کی لاش  ضیاالحق کو ناگہانی موت کی طرف لے گئی،  بینظیر بھٹو کی لاش آصف علی زرداری کو اقتدار کی جانب لے گئی، اور اب یہ ماڈل ٹاؤن سانحے کے لاشیں نواز شریف اور شہباز شریف کو کہاں تک لے جائیں گی اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا. 
عمران خان روز آزادی کا جشن منا رہے ہیں  مگر آزادی کا دن نہیں آرہا .  عوام انتظار میں ہیں کہ یا تو نیا پاکستان بن جاۓ یا ہم لوگ جیسے پرانے پاکستان میں مختلف عوامل سے ڈر ڈر کر  زندگی گزار رہے  تھے اسی طرح گزارتے رہیں.
یہ پارلیمنٹ کی اپوزیشن آج جمہوریت کو بچانے کے لیے ایک ہوگئی ہے، یہ اس وقت کیوں ایک نہیں ہوتی جب پاکستانی عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے مزید دبا دیا جاتا ہے . ملک کو کرپشن کی جانب مزید دھکیلا جاتا ہے. ہاں یہ پارلیمنٹ اس وقت بھی ایک ہو جاتی ہے جب ارکان اسمبلی کے کسی ذاتی مفاد کی بات ہو جیسا کہ ان کی تنخواؤں اور دیگر مراعات کا معاملہ ہو. پاکستان قوم کے مفاد کی بات ہو تو یہ کبھی ایک نہیں ہوتے. اس وقت بھی پورے ملک کے سیاستدان اپنے اپنے مفاد کی خاطر سیاست کر رہے ہیں. کوئی ملک کے لیے نہیں سوچ رہا کیا ملک اہم ہے یا جمہوریت ؟ سب جمہوریت کے لیے تو ایک ہیں مگر ملک کے لیے ایک نہیں ہو سکتے.
پاکستانی عوام مہنگائی کے ہاتھوں ، سٹریٹ کرائمز کے ہاتھوں، دهشت گردوں کے ہاتھوں، کرپشن کے ہاتھوں جکڑی ہوئی ہے. ترسی ہوئی قوم کو  جہاں بھی امید کی کوئی کرن نظر اتی ہے یہ اس طرف چل پڑھتے ہیں. ان لوگوں کا قصور نہیں ہے جو دھرنے میں بیٹھے ہوۓ ہیں قصور تو ان کرپٹ سیاستدانوں کا ہے جنہوں نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا . یہ اپنے مفاد کی خاطر پارٹیوں میں لوٹوں کی طرح  لڑھکتےرهتے  ہیں . مگر پاکستان اور اس کی عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے.
ایک عام پاکستانی یہ سوچتا ہے کہ ملک میں خوشحالی آجاۓ ، مہنگائی ختم ہوجاۓ  ملک میں امن و امان ہو.دہشت گردی کا خاتمہ ہو ہر کوئی چین و سکون کے ساتھ رہیں  مگر یہ سب کیسے ہوگا اس کا جواب نا تو موجودہ حکمرانوں کے پاس ہے نا ہی اپوزیشن کے پاس ہے  اور نا ہی عوام کے پاس ہے  مگر امید پر دنیا قائم ہے، اور ہماری قوم "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ" پر زندہ ہے.   

2 comments:

  1. واقعی ایک کنفیوژن کا سماں ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. بس الله رحم کرے اس ملک پر اور اس ملک کی عوام پر

      Delete