Thursday 7 November 2013

عہد فاروقی ؓ - ایک عہد ساز دور

محرم اسلامی کلینڈر کا پہلا مہینہ ہے اور اس پہلے مہینے کی پہلی تاریخ کو  داماد علی اور سسر نبی حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی . آپ کی شہادت سے مسلمان ایک جلیل القدر صحابی ، عدل و انصاف کے پیکر  اور ایک مثالی حاکم سے محروم ہوگۓ.  حضرت عمر کی پیدائش واقع فیل کے چھ سال بعدقبیلہ بنو عدی مکہ میں  ہوئی. زمانہ جاہلیت میں آپ ان چند لوگوں میں شامل تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے. آپ کا شمار مکہ کے بہادر ترین لوگوں میں ہوتا تھا.  پہلے پہل آپ نے نبی کرم  صلی الله علیہ وسلم کی دعوت اسلام کی سختی سے مخالفت کی مگر نبی کریم کی اس دعا کہ  یا الله ! اسلام کو عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام کے ذریعے تقویت بخش  کے بعد حضرت عمرؓ کا سینہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا اسی لیے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے .  حضرت عمر فاروق ؓکے اسلام قبول کرنے کے بعد  مسلمانوں نے بیت الله میں نماز ادا کی  جبکہ اس سے قبل مسلمان چھپ چھپ کر نماز ادا کرتے تھے. جس کے باعث کفار قریش کے اعصاب کمزور ہوۓ اور اسلام کو تقویت ملی. آپ کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں کی خوشی کا عالم دیدنی تھا . آپ کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا.آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا " تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے" مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا.
حضرت عمر فاروق ؓ نے چالیسویں نمبر پر اسلام قبول کیا اور قبول اسلام کے بعد آپ کا زیادہ تر وقت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی قربت میں گزرتا تھا آپ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ 27 جنگوں میں شرکت کی .  آپ نے اپنی ایک صاحبزادی حضرت حفصہ کا نکاح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے کیا . اور دور خلافت میں حضرت علی ؓ کی صاحبزادی ام کلثوم سے نکاح کیا.    اس کے علاوہ آپ نے سات اور نکاح کئے تھے ، جن سے آپ کے  سات صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں تھیں.
حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے آپ کے لیے متعدد ارشاد کئے ، ایک موقع پر حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کے اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.  حضور کے اس ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بارگاہ نبوی میں حضرت عمر ؓ کی کتنی اہمیت تھی . ایک اور موقع پر  حضور پاک صلی الله علیہ  وسلم نے فرمایا جس راستے سے عمر گزرتا ہے  شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے یعنی کے شیطان بھی حضرت عمر ؓ سے خوف کھاتا ہے .   اسی طرح سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کے خدا نے عمر کی زبان سے حق جاری کر دیا  ہے. آپ کا لقب فاروق بھی اسی امر کی نشاندھی کرتا ہے ہے جس کے معنی  ہیں  سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والا. آپ کی علمیت کےبارے میں  حضرت ابن مسعود  ؓ فرماتے ہیں کہ  علم کے دس حصوں میں سے ایک حصہ ساری امت کو دیا گیا اور باقی نو حصے  حضرت عمر ؓ کو دئیے گۓ ہیں.  صحابی رسول کی اس شہادت کو اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے  تو کافی حد تک یہ بات درست معلوم ہوتی ہے .  دور خلافت میں آپ کی جانب سے کئے جانے والے کام، آپ کے فیصلے، اجتہادات  اور آپ کے فرمادات رہتی دنیا  تک لوگوں کو فائدہ پہنچا تے رہیں گے.  اسی سلسلے میں حضرت علی کرم الله وجہ  کا بھی ارشاد ہے کہ جب صالحین کا ذکر کرو تو عمر ؓ کو ضرور یاد کر لیا کرو.
حضرت عمر ؓ نے منصب خلافت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وفات کے بعد 13 ہجری میں سنبھالا   اور تقریبا ساڑھے دس سال تک یہ ذمہ داریاں سنبھالی.  حضرت عمر فاروق  ؓ کا دور اسلامی فتوحات کا دور تھا . اس وقت کی دونوں طاقتور ریاستیں ایران اور روم کو شکست دیکر ایران، عراق، شام اور بیت المقدس  کو اسلامی ریاست میں شامل کیا گیا اور چھوٹے بڑے 3600 علاقوں کو فتح کر کہ 22 لاکھ مربع میل پر اسلامی حکومت قائم کی  اتنی فتوحات آج تک کسی حکمران کو حاصل نہیں ہوئی  اسی لیے اگر کوئی سکندر اعظم ہے تو بجا طور پر حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ ہیں. دور فاروقی میں 900 جامع مسجد اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئی.  اسی دور میں اسلامی ریاست میں باقاعدہ عدالتی نظام رائج کیا گیا ، چھاونیاں قائم کی گئی . پولیس اور ڈاک  کے محکموں  کو تشکیل دیا گیا  شراب نوشی کی حد 80 کوڑے مقرر کی  ،  تراویح  کو باقاعدہ جماعت کی شکل دیکر مساجد کو مزین کیا گیا ، آپ کے دور میں عدالت میں ایسے بے مثال فیصلے ہوۓ جو کا آج تک لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں . انصاف کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر آپ
 منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم یرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ مجھ  کو کیا حق ہے کہ خدا کے مال میں سے باندی رکھوں۔ میرے لیۓ صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا سردی  کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی کوکسی دوسرے ملک کا گورنر یا  عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے کہ گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا، عمدہ کھانا نہ کھانا، باریک کپڑا نہ پہننا  اور حاجت مندوں کی داد رسی کرنااور اگر کوئی ان شرائط کی خلاف ورزی کرتا تو سزا دیتے تھے  غرض یہ کہ اسلامی سلطنت کے حکمران سے لیکر عام شہری تک کوئی بھی قانون سے مستثنیٰ نہیں تھا. یہی وجوہات تھی کہ پورے اسلامی سلطنت میں امن و امان قائم تھا.
حضرت عمر فاروق ؓ نے حکمران ہونے کے باوجودساری ساری رات گلیوں اور بازاروں میں پہرے دئیے، ضرورت مندوں ، ناداروں ، بھوکوں اور پیسوں کی مدد کے لیے خود چل کر گۓ، اسلامی سلطنت میں موجود ہر شخص  کی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات کام کیا ، قحط کے دنوں میں خود گھی اور زیتون ترک کر دیا اور غریبوں کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہے.  آج کے عہد کی کامیاب اور سپر پاورز حکومتیں بھی  حضرت عمر ؓ کے دور حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتی  اور اگر موازنہ کریں  تو  اندازہ ہوگا کہ اس دور کی اسلامی سلطنت میں جوعوام کی فلاح کے لیے، سستے اور آسان انصاف کے لیے  اور لوگوں کی داد رسی کے لیے جو  کام 1400 سال قبل کئے گۓ تھے ، موجودو دور کی جدید حکومتیں تمام سہولیات ہونے کے بعد بھی ان تک نہیں پہنچ سکی ہیں.  بقول غیر مسلموں کے کہ اگر حضرت عمر ؓ دس سال اور رہتے تو پوری دنیا میں اسلام ہوتا.
ایک مجوسی غلام ابو لولوفیروز مجوسی  نے28 ذی الحج  کو  نماز فجر کے وقت آپ ؓ پر حملہ کیا  اور آپ کے شکم مبارک میں خنجر سے وار کیا جس کے باعث حضرت عمر فاروق  ؓنے یکم محرم الحرام کو شہادت کا جام نوش کیا . اور حضرت عائشہ ؓ کی اجازت کے بعد آپ کو نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم اور اپنے پیش رو حضرت ابو بکر صدیق کے پہلو میں دفن کیا گیا.  
دور فاروقی اسلامی عہد  کا بے مثال دور ہے  اس دور کے کارنامے اور فیصلے تمام ملکوں اور مذاہب کے لیے مثال کی اہمیت رکھتے ہیں . دیگر مذاہب کے بڑے بڑے لوگ حضرت عمر ؓ  کے کارناموں سے متاثر ہیں اور آپ کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکے  مگر آج کے دور کا مسلمان اپنے کارناموں کو یاد کرنے کے بجائے غیر مذاہب سے مدد مانگنے کے لیے دوڑا چلا جاتا ہے. ہمارے حکمرانوں کو چاہئیے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے غیر اسلامی ملکوں کی پیروی کرنے کے بجائے خلفاۓ راشدین کی اصلاحات ، کارناموں اور فیصلوں کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں . اور خلفاۓ راشدین کے کارناموں  کو نئی نسل کی اصلاح اور ہدایت کا ذریعہ بنائیں.   

Monday 28 October 2013

ملالہ حقیقت یا ڈرامہ



ملالہ حقیقت یا ڈرامہ
شہرت کے دوام عروج پر پہنچنے والی ملالہ یوسفزئی نے امن کے لیے ایسا کیا کام کیا جو اسے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سےکئی ایوارڈز دئیے گۓ یہ ایسی گتھی ہے جسے سلجھانے کی کوشش کئی لوگوں نے اپنے مفروضے اور اندازوں کی مدد سے  کی مگر یہ ایک ایسی پہیلی ہے جس کا جواب ملالہ نے خود ہی اپنی کتاب I am Malala میں دے دیا ہے . پاکستان اور اسلام کے خلاف بولنے کے صلے میں بین الاقوامی سطح پر تو ملالہ کی شہرت میں تو اضافہ ہو رہا ہے مگر پاکستان کی سطح پر اس کی شہرت بتدریج گر رہی ہے  اور سوشل میڈیا پر جس طرح سے ملالہ پر تنقید ہو رہی ہے اس سے یہ لگ رہا ہے کہ پاکستانی عوام نے ملالہ اور اس کے والد ضیاء الدین کو ایک امریکن ایجنٹ کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے.
ملالہ یوسفزئی کو شہرت ملنے کا آغاز بی بی سی کی ویب سائٹ پر گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھنے کے بعد ہوا  اور اس شہرت کو ہوا دینے میں ہمارے اور مغربی میڈیا نے بھرپور کردار ادا کیا مگر بعد میں مختلف ذریعے سے یہ بات سامنے آئی کہ گل مکئی نے نہیں بلکہ بی بی سی کے نمائندے عبد الحیئ کاکڑ نے لکھی اور اس کے لئےملالہ اور اس کے والد سے اجازت لینے کے ساتھ ان کو  معاوضہ بھی ادا کیا گیا تھا . 
ملالہ کی ڈائری کے ویب سائٹ پر شائع ہونے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کے ملالہ کی ڈائری کے بعد سوات اور اس سے ملحقہ علاقے کی لڑکیوں نے اسکول اور کالج جانا شروع کیا حالانکہ یہ تاثر بلکل غلط ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سوات میں بچیوں کے اسکول اور کالج جانے کی شرح میں تھوڑا تو اضافہ ہوتا سوات میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی شرح جتنے پہلے تھی آج بھی کم و بیش اتنی ہی ہے .
ملالہ کو  شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں اس گولی نے بڑا اہم کردار ادا کیا جو کہ اس کے سر پر لگی  اور گردن تک اتر گئی مگر کمال ہے کہ ملالہ کو صرف بولنے میں تھوڑی پرابلم ہوئی اور باقی سب خیر ہوگیا. ملالہ کو گولی لگی یا نہیں یہ الگ بحث ہے  مگر اس حملے کے بعد پاکستانی عوام کے دل میں ملالہ کے دل میں ہمدردی کے جذبات ضرور جاگے تھے مگر جس سے طرح سے امریکی صدر بارک اباما جنہوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد معافی مانگنے سے یکسر انکار کر دیا تھا ، نے جس طرح سے ملالہ پر حملے کی مذمت کی  اور راتوں رات ملالہ کی انگلینڈ روانگی ہوئی اس نے لوگوں کے دل شکوک و شہبات کو جنم دیا اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکہ کے لئے کام کرنے والوں اور امریکی مفادات کے لیے ملکی وقار اور عزت کا سودا کرنے والوں کی اہمیت امریکہ کی نظر میں پاکستان کی فوج سے زیادہ ہے .اس حملے کے بعد لوگوں نے سوشل میڈیا پر ملالہ اور اس کے والد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور دونوں کو امریکی ایجنٹ قرار دیکر اس حملے کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا.
ملالہ متنازع شخصیت کی تو شروع  مالک تھی مگر رہی سہی کسر ملالہ کی کتاب نے پوری کر دی . کتاب پڑھ کر لگا کہ یہ پاکستان اور اسلام دشمن لوگوں کی آواز ہے .جس طرح سے اس کتاب میں سلمان رشدی  کی حمایت ، پاک بھارت جنگ، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے واقعہ ، ناموس رسالت کے قانون  اور ملالہ کے والد کی جانب سے پاکستان کے یوم آزادی کے دن سیاہ پٹیاں باندھنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے یہ بات عیاں ہوگئ کہ یہ کتاب ایک سولہ سالہ بچی کی آواز نہیں بلکہ  یہ سب مغرب کی اسلام دشمن عناصر کی جانب سے کی جانے والی کوشش ہے  اور ملالہ اور اس کے والد  صرف ایک مہرے کی  طرح سے کام کر رہے ہیں .
اب اگر  بات کریں ملالہ کے آبائی شہر سوات کی، تو سوات کے لوگ بھی ملالہ سے ناخوش ہی نظر آتے ہیں  اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے وہ واقعہ ہی کافی ہے جب سوات میں موجود سیدہ گرلز کالج کا نام بدل کر ملالہ کے نام سے منسوب کیا گیا تو سوات کی تاریخ میں پہلی بار کالج کی طالبات  نے روڈ پر نکل کر بھرپور احتجاج کیا جس کے باعث مجبور ہو کر انتظامیہ کو نام واپس تبدیل کرنا پڑا. اگر سوات کی عوام کے دل میں ملالہ کے لیے عزت و احترام ہوتا تو یہ واقعہ ہی نہیں ہوتا .
ملالہ کی نوبل انعام کے لئے  نامزدگی ،  اقوام متحدہ میں خطاب اور  مختلف فورم  پر ایوارڈ کے ملنے میں مغرب کی حمایت ، پاکستان  اور اسلام دشمن زبان کے علاوہ بظاہر تو اور کوئی خاص بات نظر نہیں آتی ، مگر جس طرح سے ہمارے میڈیا نے اسے بھرپور کوریج دی اس نے میڈیا کی مغرب نظری کو بھی ہمیشہ کی طرح واضح کیا میڈیا نے تو یہ بات ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ ملالہ پاکستان کا سرمایہ ہے مگر اس کے برعکس سوشل میڈیا نے بھرپور تنقید اور مخالفت کر کہ یہ ثابت کیا کہ پاکستانی عوام کے دل میں ملالہ کے لیے کوئی ہمدردی باقی نہیں بچی ہے.

Monday 14 October 2013

عید الاضحیٰ – الله کی خوشنودی حاصل کرنے کا دن



جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لاۓ تواہل مدینہ کے لیے دودن ایسے تھے جس میں وہ لھو لعب کیا کرتے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( بلاشبہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اس سے بہتر اور  اچھے دن دن عطاکیے ہیں وہ عید الفطر اورعیدالاضحی کے دن ہیں ۔ تواللہ تعالٰی نے وہ لھولعب کے دو دن ذکر وشکراورمغفرت درگزر میں بدل دیے .
 عید الاضحیٰ ذوالحج کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ اس دن مسلمان کعبۃ اللہ کا حج بھی کرتے ہیں۔  عیدالاضحی ہے جو کہ ذی الحج کے دن میں آتی اوریہ دونوں عیدوں میں بڑی اورافضل عیدہے اورحج کے مکمل ہونے کے بعدآتی ہے جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تواللہ تعالٰی انہیں معاف کردیتا ہے۔
اس لیے کہ حج کی تکمیل یوم عرفہ میں وقوف عرفہ پرہوتی ہے جوکہ حج کاایک عظیم رکن ہے جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے. حج عرفہ ہی ہے یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالٰی آگ سے آزادی دیتے ہیں ۔ تواس لیے اس سے اگلے دن سب مسلمانوں حاجی اورغیرحاجی سب کے لیے عید ہوتی ہے ۔ اس دن اللہ تعالٰی کے تقرب کے لیے ہر صاحب نصاب شخص پر قربانی کرنا واجب  ہے ۔ جو صاحب نصاب ہو کر بھی قربانی نہ کرے اس کے لیے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے کہ جس میں وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب   ہر گز نہ آئے (ابن ماجہ)
یہ دن اللہ تعالٰی کے ہاں سب سے بہترین دن ہےاللہ تعالٰی کے ہاں سب سے افضل اوربہتر دن یوم النحر ( عیدالاضحی ) کا دن ہے اوروہ حج اکبروالا دن ہے جس کا ذکر حدیث میں بھی ملتا ہے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یقینا یوم النحر اللہ تعالٰی کے ہاں بہترین دن ہے (سنن ابوداود حدیث نمبر 1765 )۔
حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحر میں ابن آدم کا کوئی  عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (ےیعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سنگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک قبول ہو جاتا ہے لہٰذا اسے خوش دلی سے کرو (ترمذی ، ابن ماجہ)
قربانی کا مقصد یہ ہے کہ خالص اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے  لیے قربانی کی جاۓ نہ کہ نمود و نمائش اور دنیا دکھاوے  کے لیے قربانی کی جاۓ .عیدالاضحی ہمیں اپنا سب کچھ الله کی راہ میں قربان کرنے کا درس دیتی ہے. لیکن  آج کل لوگ دنیا دکھاوے کے لیے مہنگا سے مہنگا سے جانور خریدتے ہیں  اور اس کی تشہیر کرتے ہیں قربانی کے جانور کے ساتھ فوٹو اور ویڈیوز بنوا کر مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر اپ لوڈ کرتے ہیں جو کو سراسر غلط ہے . اسلام میں ویسے ہی تصویر بنانا گناہ کے زمرہ میں آتا ہے . لیکن لوگ اس اسلامی شعار کے ساتھ گناہ کو شامل کرنے سے باز نہیں آتے بلکہ اس میں بھی اپنی تشہیر کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے سے دیتے. یہ تو وہ عمل ہے جو کہ اگر الله کی رضا کے لیے کیا جاۓ تو آخرت میں نامہ اعمال میں قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی دی جاۓ گی .  صحابہ اکرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی علیہ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں ؟  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے لوگوں نے عرض کیا  یا رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہمارے لیے کیا ثواب ہے ؟ فرمایا ہر بال کے برابر نیکی ہے عرض کی اون کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا! اون کے ہر بال کے بدلے بھی نیکی ہے (ابن ماجہ).
اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے ، الله تعالیٰ اپنے بندے کی نیت دیکھتا ہے  کہ میرے بندے نے کس نیت سے قربانی کی ہے  خالص اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کی نیت ہونی چاہئیے قرآن کریم  میں الله تبارک تعالیٰ کا ارشادہے کے الله تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے  اور نہ  خون بلکہ اسے تمہارا تقوی پہنچتا ہے. 


قربانی کے وقت جانورکے گلے پر چھری پھیرتے وقت ہمیں اپنے نفس اور خواہشات پر بھی چھری پھیرنی چاہئیے  جس کام کا حکم الله تعالیٰ نے دیا ہے اس کو کرنا چاہئیے اور جس کام سے ہمیں روکا گیا ہے ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئیے . اب یہ ہم لوگوں پر منحصر ہے کے اس دن اللہ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں یا نمودونمائش کر کہ دنیا میں اپنی تشہیر کریں. الله ہماری نیتوں کو درست کرے اور ہم سب لوگوں کو ہدایت نصیب فرماۓ  اور ساتھ ہی نیک اعمال کرنے اور برائی سے روکنے کی توفیق دے (آمین).

Monday 7 October 2013

زکوٰۃ ، مذہبی اورسماجی فرض



زکوٰۃ ، مذہبی اورسماجی فرض
عربی زبان میں زکوٰۃ کے معنی ہیں کسی چیز کو گندگی سے، آلائشوں سے اور نجاست سے پاک کرنا، زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ کا نام اسی لیے دیا گیا ہے کہ وہ انسان کے مال کو پاک کر دیتی ہے اور اس مال میں الله کے رحمت و برکت شامل ہو جاتی ہے . اور جس مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے وہ ناپاک اور گندہ رہتا ہے. زکوٰۃ  اسلام کے پانچ بنیادی  ارکان میں سے ایک ہے، زکوٰۃ کی فرضیت قرآن میں نماز کے ساتھ ساتھ آئی ہے  قران کریم میں ہے کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کی کیا اہمیت ہے. سب سے بڑھ  کر یہ کہ قرآن کریم میں تقریبا 32 مقامات پر زکوٰۃ کا ذکر فرمایا ہے اور مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو اس اہم فریضے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے. مگر جس سے طرح سےمسلمان  دنیاوی کاموں میں لگ کر الله کے دئیے گۓ احکامات سے چشم پوشی کرنے لگے ہیں بلکل اسی طرح سے مختلف مفروضوں کی بناء پر زکوٰۃ ادا کرنے سے کترانے لگے  ہیں . صرف یہ سوچ کر زکوٰۃ ادا نہیں کرتے کہ شائد زکوٰۃ ادا کرنے سے ان کے مال و دولت میں کوئی کمی آجاۓ گی حالانکہ ایسا بلکل نہیں ہے. جس سے طرح سے درخت کی تراش خراش کرنے کے بعد وہ پھلتا پھولتا ہے بلکل اسی طرح زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد مال و دولت میں بھی اضافہ ہوتا ہے. انسان زکوٰۃ کی مد میں جتنا خرچ کرتا ہے اس کے مال میں اتنی ہی زیادہ برکت ہوتی ہے . زکوٰۃ ادا کرنے سے مفلسی نہیں آتی .
آج کی دنیا مادہ پرست دنیا ہے، ہر کام میں نفع نقصان دیکھا جاتا ہے  بظاہر زکوٰۃ دینے سے انسان کو یہ لگتا ہے کہ اس کے مال میں کوئی کمی ہوگئی مگر عملا اسے فائدہ ہوتا ہے. جوکہ وقتی طور پر انسان کو نظر نہیں آتا . جس کے باعث بھی وہ زکوٰۃ ادا کرنے سے کتراتا ہے.
قران کریم میں الله تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "فلاح پاتے ہیں جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں". ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ "جو کچھ تم  خرچ کرو گے الله تعالیٰ اس کی جگہ اور دے گا اور وہ بہتر روزی دینے والا ہے " زکوٰۃ کے حوالے سے حضرت جابر  رضی الله  تعالیٰ سے مروی ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی بے شک الله تعالیٰ نے اس سے شر دور فرما دیا".
الله تعالیٰ نے زکوٰۃ کا فریضہ ایسا رکھا ہے کہ اس کا اصل مقصد تو اللہ تبارک تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرنا ہے دوسری جانب جو انسان زکوٰۃ ادا کرتا ہے اس کے دل سے اللہ تعالیٰ مال و دولت کی محبت کو ختم فرما دیتے ہیں لہذا جس کے دل میں مال کی محبت ہوگی وہ زکوٰۃ ادا کرنے سے کترائے گا  کیونکہ بخل اور مال کی محبت انسان کی بدترین کمزوریوں میں سے ایک ہے اور اس کمزوری کا علاج الله تبارک تعالیٰ نے زکوٰۃ ادا کرنے میں پوشیدہ رکھا ہے . زکوٰۃ ادا کرنے کا دوسرا اہم مقصد یہ بھی ہے کہ جو  غریب لوگ  شرمندگی کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے  ان کی مدد ہوجانے.  اگر پاکستان کے  وہ تمام لوگ جن پر زکوٰۃ فرض ہے وہ صحیح طریقے سے  زکوٰۃ ادا کریں  تو اس اسے یقینا پاکستان سے غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا  کیونکہ کافی لوگ تو زکوٰۃ ادا ہی نہیں کرتے اور جو ادا کرتے ہیں ان میں سے بھی اکثر بغیر کسی حساب کتاب کے  اندازے سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں غریبوں کو جو فائدہ پہنچنا چاہئیے وہ ان کو نہیں پہنچ رہا .
زکوٰۃ  محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دی جاتی ہے ۔جن سے ان کی ضرورتیں اور حاجات پوری ہوتی ہیں ۔اگر تمام مالدار اپنی زکوٰۃ نکالتے رہیں او رصحیح مقامات پر خرچ کرتے رہیں تو یقینا تمام غرباء کی ضروریات پوری ہوجائیں گی ۔اس سے معاشرے میں بگاڑ اور فساد بھی  بہت حد تک ختم ہوجائے گا.
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے حوالے سے بہت سخت وعید ہیں. حدیث پاک حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں ، جس کے پاس سونا چاندی ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ نہ دے   تو قیامت کے دن اس سونے چاندی کی تختیاں بنا کر جہنم کی آگ میں تپائیں گے پھر ان سے اس شخص کی پیشانی، کروٹ، اور پیٹھ پر داغ دیں  گے جب وہ تختیاں ٹھنڈی ہو جائیں گی تو پھر انھیں تپائیں گے. قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہے یونہی کرتے رہیں  گے یہاں تک تمام مخلوق کا حساب ہوچکے.
شریعت نے زکوٰۃ کا نصاب مقرر کر دیا ہے جس شخص کے پاس وہ نصاب ہوگا اس پر زکوٰۃ فرض ہو جائے گی.  ہم میں سے اکثر لوگوں کا زکوٰۃ کا صحیح نصاب کا پتہ نہیں ہوتا  جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر زکوٰۃ فرض ہی نہیں ہے . حالانکہ بہتر تو یہ ہے کہ سب لوگ زکوٰۃ کے صحیح نصاب کا پتہ کرکے زکوٰۃ کو صحیح ادا کریں.