Monday 28 October 2013

ملالہ حقیقت یا ڈرامہ



ملالہ حقیقت یا ڈرامہ
شہرت کے دوام عروج پر پہنچنے والی ملالہ یوسفزئی نے امن کے لیے ایسا کیا کام کیا جو اسے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سےکئی ایوارڈز دئیے گۓ یہ ایسی گتھی ہے جسے سلجھانے کی کوشش کئی لوگوں نے اپنے مفروضے اور اندازوں کی مدد سے  کی مگر یہ ایک ایسی پہیلی ہے جس کا جواب ملالہ نے خود ہی اپنی کتاب I am Malala میں دے دیا ہے . پاکستان اور اسلام کے خلاف بولنے کے صلے میں بین الاقوامی سطح پر تو ملالہ کی شہرت میں تو اضافہ ہو رہا ہے مگر پاکستان کی سطح پر اس کی شہرت بتدریج گر رہی ہے  اور سوشل میڈیا پر جس طرح سے ملالہ پر تنقید ہو رہی ہے اس سے یہ لگ رہا ہے کہ پاکستانی عوام نے ملالہ اور اس کے والد ضیاء الدین کو ایک امریکن ایجنٹ کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا ہے.
ملالہ یوسفزئی کو شہرت ملنے کا آغاز بی بی سی کی ویب سائٹ پر گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھنے کے بعد ہوا  اور اس شہرت کو ہوا دینے میں ہمارے اور مغربی میڈیا نے بھرپور کردار ادا کیا مگر بعد میں مختلف ذریعے سے یہ بات سامنے آئی کہ گل مکئی نے نہیں بلکہ بی بی سی کے نمائندے عبد الحیئ کاکڑ نے لکھی اور اس کے لئےملالہ اور اس کے والد سے اجازت لینے کے ساتھ ان کو  معاوضہ بھی ادا کیا گیا تھا . 
ملالہ کی ڈائری کے ویب سائٹ پر شائع ہونے کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کے ملالہ کی ڈائری کے بعد سوات اور اس سے ملحقہ علاقے کی لڑکیوں نے اسکول اور کالج جانا شروع کیا حالانکہ یہ تاثر بلکل غلط ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سوات میں بچیوں کے اسکول اور کالج جانے کی شرح میں تھوڑا تو اضافہ ہوتا سوات میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کی شرح جتنے پہلے تھی آج بھی کم و بیش اتنی ہی ہے .
ملالہ کو  شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں اس گولی نے بڑا اہم کردار ادا کیا جو کہ اس کے سر پر لگی  اور گردن تک اتر گئی مگر کمال ہے کہ ملالہ کو صرف بولنے میں تھوڑی پرابلم ہوئی اور باقی سب خیر ہوگیا. ملالہ کو گولی لگی یا نہیں یہ الگ بحث ہے  مگر اس حملے کے بعد پاکستانی عوام کے دل میں ملالہ کے دل میں ہمدردی کے جذبات ضرور جاگے تھے مگر جس سے طرح سے امریکی صدر بارک اباما جنہوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد معافی مانگنے سے یکسر انکار کر دیا تھا ، نے جس طرح سے ملالہ پر حملے کی مذمت کی  اور راتوں رات ملالہ کی انگلینڈ روانگی ہوئی اس نے لوگوں کے دل شکوک و شہبات کو جنم دیا اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکہ کے لئے کام کرنے والوں اور امریکی مفادات کے لیے ملکی وقار اور عزت کا سودا کرنے والوں کی اہمیت امریکہ کی نظر میں پاکستان کی فوج سے زیادہ ہے .اس حملے کے بعد لوگوں نے سوشل میڈیا پر ملالہ اور اس کے والد کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور دونوں کو امریکی ایجنٹ قرار دیکر اس حملے کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا.
ملالہ متنازع شخصیت کی تو شروع  مالک تھی مگر رہی سہی کسر ملالہ کی کتاب نے پوری کر دی . کتاب پڑھ کر لگا کہ یہ پاکستان اور اسلام دشمن لوگوں کی آواز ہے .جس طرح سے اس کتاب میں سلمان رشدی  کی حمایت ، پاک بھارت جنگ، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے واقعہ ، ناموس رسالت کے قانون  اور ملالہ کے والد کی جانب سے پاکستان کے یوم آزادی کے دن سیاہ پٹیاں باندھنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے یہ بات عیاں ہوگئ کہ یہ کتاب ایک سولہ سالہ بچی کی آواز نہیں بلکہ  یہ سب مغرب کی اسلام دشمن عناصر کی جانب سے کی جانے والی کوشش ہے  اور ملالہ اور اس کے والد  صرف ایک مہرے کی  طرح سے کام کر رہے ہیں .
اب اگر  بات کریں ملالہ کے آبائی شہر سوات کی، تو سوات کے لوگ بھی ملالہ سے ناخوش ہی نظر آتے ہیں  اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے وہ واقعہ ہی کافی ہے جب سوات میں موجود سیدہ گرلز کالج کا نام بدل کر ملالہ کے نام سے منسوب کیا گیا تو سوات کی تاریخ میں پہلی بار کالج کی طالبات  نے روڈ پر نکل کر بھرپور احتجاج کیا جس کے باعث مجبور ہو کر انتظامیہ کو نام واپس تبدیل کرنا پڑا. اگر سوات کی عوام کے دل میں ملالہ کے لیے عزت و احترام ہوتا تو یہ واقعہ ہی نہیں ہوتا .
ملالہ کی نوبل انعام کے لئے  نامزدگی ،  اقوام متحدہ میں خطاب اور  مختلف فورم  پر ایوارڈ کے ملنے میں مغرب کی حمایت ، پاکستان  اور اسلام دشمن زبان کے علاوہ بظاہر تو اور کوئی خاص بات نظر نہیں آتی ، مگر جس طرح سے ہمارے میڈیا نے اسے بھرپور کوریج دی اس نے میڈیا کی مغرب نظری کو بھی ہمیشہ کی طرح واضح کیا میڈیا نے تو یہ بات ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ ملالہ پاکستان کا سرمایہ ہے مگر اس کے برعکس سوشل میڈیا نے بھرپور تنقید اور مخالفت کر کہ یہ ثابت کیا کہ پاکستانی عوام کے دل میں ملالہ کے لیے کوئی ہمدردی باقی نہیں بچی ہے.

2 comments:

  1. ہماری تاریخ گواہ ہے کہ میر جعفر اور میر صادق جیسے کردار ہی دوسروں سے بڑھ کر ہمارے لیے زہرِقاتل ثابت ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی رُکا نہیں ہے۔ بات صرف اُنہیں پہچاننے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ہے۔ ایک اچھی کوشش ملالہ اور سلالہ کے درمیان تعلق ثابت کرنے کی لیکن اہم یہ ہے کہ ہم اب مزید کسی کے ہاتھوں کھلونا نہ بنیں اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں جلد از جلد۔

    ReplyDelete
  2. آپ کی بات بلکل درست ہے مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں شکست نہیں دے سکتی

    ReplyDelete