Wednesday 25 September 2013

حرام کام حرام ہی ہوتا ہے



حرام کام حرام ہی ہوتا ہے

آج کل جس طرح سے حرام کام ہمارے معاشرے میں سرائیت کر چکے ہیں ان کو دیکھ کر صرف یہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلمان عوام نے حرام کو حرام سمجھنا چھوڑ دیا ہےاور یہ بات حقیقت سے قریب تر اس لیے بھی لگتی ہے کہ جھوٹ کو مذاق، شراب کو تفریح، رشوت کو حق اور سود کو منافع کا نام دے دیا گیا ہے. حرام کام کو کوئی بھی نام دے دیں، رہے گا تو وہ حرام ہی اور اس کام کے کرنے والوں کے لیے جو سزا الله تبارک تعالیٰ نے مقرر کی ہے اس میں کسی بھی کسی قسم کا ردوبدل کرنے کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے. مگر اس کے باوجود بھی عقل و شعور رکھنے والا حضرت انسان اور سب سے بڑھ کر کلمہ  گو مسلمان حرام کام کو کرنے سے باز نہیں آرہے فانی دنیا کے لیے آخرت کی ابدی زندگی کو بھلا بھیٹے ہیں.  کیا یہ تمام کام کر کے ہم لوگ الله کے غضب کو آواز نہیں دے رہے ؟  اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو کیوں پاکستانی معاشرہ میں یہ برائیاں عام ہیں.  وہ  شاید اسلئے کہ مسلمانوں نے گناہ اور ثواب کے فرق  اور حرام کام کو حرام سمجھنا چھوڑ دیا ہے.  
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے وہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے مانے والوں کی رہنمائی کرتا ہے . روحانی اور معاشرتی مسائل کی طرح وہ انسان کو ان کے معاشی مسائل کا حل بھی بتاتا ہے . قرآن اور حدیث میں زندگی گزا ر نے کے تمام اصول بتا دئیے گئے ہیں  مگر اس کے باوجود بھی ہم لوگوں کو کوئی رہنمائی نہیں مل رہی وہ اس لیے کے قرآن کو گھر میں رحمت حاصل کرنے کے لیے صاف ستھرے کپڑے میں لپیٹ کر کسی اونچی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے چہ جائکہ اس سے رہنمائی حاصل کی جاۓ .
اسلام میں جھوٹ بولناتمام گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے اللہ کے حبیب نبی کریم صلّی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "میں تم کو سب گناہوں میں بڑا گناہ بتاتا ہوں الله (عزو جل ) کے ساتھ کسی کو شریک ٹہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے پھر نبی کریم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا ، جان لو کہ جھوٹی بات کرنا سب سے بڑا گناہ ہے ."  (صحیح بخاری ) اتنی واضح ہدایت کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں جھوٹ اس حد تک پھیل چکا ہے  کہ ہم نے جھوٹ کو  جھوٹ سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے. جھوٹ کیا ہے ؟ حقیقت کے خلاف بات بیان کرنا جھوٹ کہلاتا ہے .  اتنی معمولی بات کے لیے ہم جھوٹ بول دیتے ہیں کہ احساس نہیں ہوتا  کہ ہم ایک حرام کام اور گناہ کبیرہ کر چکے ہیں . قرآن کریم میں الله تعالیٰ نے جھوٹ بولنے والوں کے لیے ارشاد فرمایا  ہے کہ :
"جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ."
جھوٹ بولنے کی ہمارے معاشرہ میں جو مثالیں ہیں  وہ یہ کہ دفتر سے فون آنے پر گھر پر موجود ہونے کے باوجود ہم کہ دیتے ہیں کے شہر سے باہر ہیں. گھر میں موجود ہوتے ہیں کسی نے نہ ملنا ہو تو گھر والوں سے جھوٹ کہلوا دیتے ہیں کے گھر پر نہیں ہیں. کوئی ادھار مانگ لے تو پیسے ہونے کے باوجود کہہ دیتے ہیں کے پیسے نہیں ہیں.دوست کسی کام کا کہہ دے اور ہمیں نہ کرنا ہو تو بھی جھوٹ کا سہارا لے کر اسے ٹال دیتے ہیں . یہ وہ بڑ ی عام سی مثالیں ہیں جن سے ہمارا روزمرہ زندگی میں اکثر واسطہ پڑتا ہے مگر ہم بغیر سوچے سمجھے اتنی روانی سے جھوٹ بول جاتے ہیں ہیں کے ہمیں خود بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتا ہے کہ ہم گناہ کبیرہ اور ایک حرام کام کر چکے ہیں اسی وجہ سے ہمیں  احساس گناہ بھی  نہیں ہوتا . بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں  اتنے  جھوٹ بولنے کے بعد بھی  ہم کہتے ہیں" شکر خدا کا جان بچ گئی "اگر ہم سوچیں تو کیا واقعی ہماری جان بچ گئی ایسا نہیں ہیں وقتی طور پر تو اُس انسان کو ہم نے ٹال دیا مگر خالق کائنات کے آگے گناہگار ہوگئے. جھوٹ بدکاری کا راستہ بتاتا ہے اور بدکاری جہنم میں پہنچا دیتی ہیں  عقل رکھنے والے کے لیے تو یہ نقصان کا سودا ہے  کہ تھوڑی سے مشکل سے بچنے کی خاطر جہنم کا راستہ اختیار کر لے .
دوسرا سب سے بڑا حرام کام سود ہے. جان بچانے کے لیے رب العالمین نے جن چار چیزوں کو حلال کر دیا ہے ان میں سود شامل نہیں ہے. الله تبارک تعالیٰ نے سود کو ہر شکل میں حرام قرار دیا ہے اگر اس کے کسی قسم کے جائز ہونے کی دلیل ہوتی تو قرآن کریم میں جان  بچانے کے لیے چار چیزوں کو مجبوری کے وقت کھانے کی اجازت ہے ، اس میں سود شامل ہوتا.
ہماری نگاہوں میں اگرچہ سود کے مال سے ترقی ہو رہی ہے لیکن دراصل دنیا میں عداوتوں کی کثرت ،  مال کی فراوانی ، دلی بے اطمینانی  او ر  بے چینی کی وجہ سے نقصان زیادہ ہو رہا ہے. اور آخرت میں تو سراسر نقصان ہی ہے.    الله تعالیٰ سود کو حرام قرار دے کر اس کو مٹانا چاہتا ہے . اس کے برعکس اگر کوئی شخص سودی لین دین  سے باز نہیں آتا تو اسے جا ن لینا چائے کہ وہ تباہی کے غار میں گر گیا ہے .جہاں سے نکلنا آسان نہیں ہے.
حضرت جابر  کہتے ہیں کے رسول کرم صلی الله علیہ وسلم نے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سودی لین دین کا کاغذ لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں  پر لعنت فرمائی ہے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کے یہ سب (اصل گناہ) برابر ہیں اگرچہ مقدار کے اعتبار سے مختلف ہوں. 
  سودی نظام، مملکت پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گیا ہے اور پاکستان کو کھوکھلا کر رہا ہے. ہمارے ملک پاکستان کا بنیادی مسئلہ غربت اور معاشی نا انصافی ہے . معاشی نا انصافی کا سب سے بڑا سبب سرمایا داری نظام ہے اور اس نظام کی اساس سود پر قائم ہے.  اس لیے ضرورت اس امر کی ہے اسلامی اقتصادی نظام کو رائج کیا جاۓ  اسلامی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ زمین، دولت یا کسی بھی قسم کا سرمایا صرف الله کی دی  ہوئی ملکیت ہے اور جب تم اپنا مال حاجت  مندوں  کو تقسیم کرتے ہو تو اللہ کی دی ہوئی ملکیت میں سے دیتے ہو .
قران پاک میں ہے کہ "جو لوگ سود کھاتے ہیں، ان کا حال اس شخص جیسا ہوتا ہے جسے شیطان نے لپٹ کر جنون سے دیوانہ بنا دیا ہو اور ان کے اس حالت میں مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں سودا بچنا (تجارت) بھی تو آخر سود جیسی چیز ہے حالانکہ اللہ نے سودے (تجارت)کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام. لہذا جس شخص کے پاس اللہ کی طرف سی یہ نصیحت پہنچی وہ آئندہ کے لیے سود لینے سے باز آگیا تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا ہے سو کھا چکا ہے اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا. 
حکومت پاکستان سودی نظام کو ختم نہ کرکے الله کے غضب کو دعوت دے  رہی ہے. ہماری زیادہ تر مالی مشکلات سودی نظام کی وجہ سے ہیں اگر آج سودی نظام کو ختم کر دیا جاۓ تو بحثیت مسلمان مجھے  امید ہے کے کچھ ہے عرصے میں اسلامی اقتصادی نظام کی برکت ظاہرہونا شروع ہوجائیں گی.
 تیسرا حرام کام جو پاکستانی عوام کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے وہ ہے رشوت . جو لوگ سرکاری دفاتر میں کام کرتے ہیں یا ان کا واسطہ سرکاری دفاتر میں پڑتا ہے وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ ان دفاتر میں  رشوت کے پہئیے لگاۓ  بغیر فائل کو آگے کرنا کتنا مشکل ہے شازو ناظر ایسا ہوتا ہے کہ ان کا کام بغیر لیے دئیے بغیر ہوجاۓ .  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ  آجکل کے دور میں رشوت کو حق سمجھ کر وصول کیا جا رہا ہے .
رشوت اسلام کی حرام کی گئی چیزوں میں سخت ترین ہے. حدیث شریف میں ہے کہ "رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں."مگر اس کے باوجود بھی جس طرح سے پاکستان میں کرپشن اور رشوت کا بازار گرم ہے اس سے تو لگتا ہی نہیں کے رشوت کوئی حرام کام ہے. آج ہم اس فانی دنیا کے فانی کاموں کے لیے رشوت دیکر کام نکال کر خوش ہو جاتے ہیں حالانکہ اسی دنیا میں ہم ماچس کی تیلی کی آگ کو برداشت نہیں کر سکتے تو آخرت میں جہنم کی آگ کو کس طرح سے برداشت کریں گے ؟ آجکل ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہے اکثریت  آخرت کو بھلا کر  بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہے. ماحول تو یہ ہوگیا ہے کہ جو لوگ رشوت کی لعنت سے بچنا چاہتے ہیں ان کو تنگ کیا جاتا ہے ان کے کام نہیں کئے جاتے . نوکری پیشہ افراد جو رشوت نہیں لینا چاہتے ان کے لیے نوکری کرنا مشکل کر دیا جاتا ہے مختلف جگہوں پر تبادلے کر دئیے جاتے ہیں .رشوت کے ذریعے قاتل اور مجرم رہا ہو جاتے ہیں ، بے گناہ پھانسی کے پھندے پر جھول جاتے ہیں . فیل کو پاس اور پاس کو فیل کیا جاتا ہے ، نا اہل کو اہل اور اہل کو نا اہل کر دیا جاتا ہے ، میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں غرض یہ کے دنیا کا کوئی کام مملکت  پاکستان  میں رشوت دے کر کرایا جا سکتا ہے.  
رشوت کے با رے میں ارشاد ہوتا ہے کہ!
اے مسلمانوں الله کے عذاب و غضب سے ڈرو  اور اس کی ناراضی اور ناراضی کے اسباب سے بچو. اس لیے کہ الله تعالیٰ بلند تر اور غیرت والا ہے  تم اپنے اہل و عیال اور رشتے داروں کو حرام مال کے خانے سے بچاؤ کیوں کہ الله تعالیٰ نے اس جسم کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی اور حرام کھانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دعا بے اثر ہو جاتی ہے.
 رشوت انسان کی غیرت کو کھا جاتی ہے  اس کی عزت کو ختم کر دیتی ہے  اور سب سے بڑھ کر یہ انسان کی محنت کو ختم کر دیتی ہے . کس قدر تشویش کی بات ہے کوئی شخص حق پر ہونے کے باوجود اپنا حق بغیر رشوت دئیے حاصل نہیں کر سکتا ، اسی طرح مظلوم پر بھی رشوت حاصل کرنے کے لیے لیے مختلف بہانے استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ رشوت نہ ادا کر دے.
اسلام میں حرام قرار دیا جانا ہے والا کام جو کہ ہمارے معاشرے خصوصانوجوان نسل کو تباہی اور گمراہی کے راستے پر لے جا رہا ہے وہ ہے شراب  نوشی، مشروبات میں شراب بالکل اسی طرح سے حرام ہے جس طرح سے کھانوں میں سور کا گوشت حرام ہے. مگر ہمارے ملک میں لوگ خصوصا مسلمان شراب کی دوکانوں کے باہر  قطار لگاکر جس سے طرح سے شراب خرید رہے ہوتے ہیں اس سے لگتا نہیں کے یہ ایک اسلامی ملک ہے . شراب کے حرام ہونے کے باوجود بھی نوجوان نسل تفریح کے نام پر یہ زہر اپنی رگوں میں انڈیل رہی ہے اور تفریح کے نام پر اپنی صحت و تندرستی برباد کر رہے ہیں .
حدیث شریف میں ہے کہ
کوئی شخص جب زنا کرتا ہے تو عین زنا کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا. اسی طرح جب شراب پیتا ہے تو عین شراب پینے کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا اور اسی طرح جب وہ چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا.
اگر سوچا جائے تو یہ کیسی تفریح ہے  جو ہمیں لمحہ بھر میں مومن کی  فہرست سے نکال دیتی ہے اورایمان باقی نہیں رہنے دیتی.   دیگر حرام کاموں کی طرح سے شراب پینے کا کوئی دُنیاوی فائدہ نظر نہیں آتا . یہ تو وہ کام ہے جس کو کرنے کے بعد انسان بہک جاتا ہے وہ اپنے ہوش و حواس کھودیتا ہے ، انسان کو اچھے برے ، ماں بہن، باپ بھائی ، دوست دشمن کی تمیز ختم ہو جاتی ہے.انسان شراب کے نشے میں بہک کر متعدد کام اسے کر دیتا ہے جن بارے  میں وہ ہوش میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا .
حضرت ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ تین آدمی جنت میں نہیں جائیں گے ایک شراب کا عادی ، دوسرا  قاطع رحم،  اور تیسرا جادو کی تصدیق کرنے والا.   ایک اور روایت میں ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کے میری امّت کے کچھ لوگ شراب پیا کریں گے لیکن اس کا نام کوئی دوسرا رکھیں گے (تو ان لوگوں پر دوہرا گناہ ہوگا) ،  شرابیوں میں اس قدر بو ہوگی کے اہل دوزخ بھی پریشان ہوجائیں گے.  
صحابہ اکرم کا تقوی اور خوف اتنا تھا کے حلال چیزوں سے بھی اپنے آپ کو بچاتے تھے ان لوگوں کی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق گزرتی تھیں وہ بے حد پرہیز گار اور متقی تھے اس کے باوجود وہ کوشش کرتے تھے کہ ہر کام میں الله اور اس کے رسول کرم صلی الله علیہ وسلم کی پیروی کریں ہم لوگ ان کے تقوی تک تو نہیں پہنچ سکتے مگر اسلام نے جن حرام کاموں سے منع کیا ہے ان سے بچنے کی کوشش کریں  اور اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں . خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے پاک و حلال کھایا ا ور سنت محمدی صلی الله علیہ وسلم کے مطابق زندگی گزاری . الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله ہم سب کو حلال کام کرنے اور حلال کھانے کی توفیق عطا فرماۓ  (آمین)

No comments:

Post a Comment