Thursday 7 November 2013

عہد فاروقی ؓ - ایک عہد ساز دور

محرم اسلامی کلینڈر کا پہلا مہینہ ہے اور اس پہلے مہینے کی پہلی تاریخ کو  داماد علی اور سسر نبی حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی . آپ کی شہادت سے مسلمان ایک جلیل القدر صحابی ، عدل و انصاف کے پیکر  اور ایک مثالی حاکم سے محروم ہوگۓ.  حضرت عمر کی پیدائش واقع فیل کے چھ سال بعدقبیلہ بنو عدی مکہ میں  ہوئی. زمانہ جاہلیت میں آپ ان چند لوگوں میں شامل تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے. آپ کا شمار مکہ کے بہادر ترین لوگوں میں ہوتا تھا.  پہلے پہل آپ نے نبی کرم  صلی الله علیہ وسلم کی دعوت اسلام کی سختی سے مخالفت کی مگر نبی کریم کی اس دعا کہ  یا الله ! اسلام کو عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام کے ذریعے تقویت بخش  کے بعد حضرت عمرؓ کا سینہ اسلام کی روشنی سے منور ہوا اسی لیے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے .  حضرت عمر فاروق ؓکے اسلام قبول کرنے کے بعد  مسلمانوں نے بیت الله میں نماز ادا کی  جبکہ اس سے قبل مسلمان چھپ چھپ کر نماز ادا کرتے تھے. جس کے باعث کفار قریش کے اعصاب کمزور ہوۓ اور اسلام کو تقویت ملی. آپ کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں کی خوشی کا عالم دیدنی تھا . آپ کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا.آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا " تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے" مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا.
حضرت عمر فاروق ؓ نے چالیسویں نمبر پر اسلام قبول کیا اور قبول اسلام کے بعد آپ کا زیادہ تر وقت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی قربت میں گزرتا تھا آپ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ 27 جنگوں میں شرکت کی .  آپ نے اپنی ایک صاحبزادی حضرت حفصہ کا نکاح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے کیا . اور دور خلافت میں حضرت علی ؓ کی صاحبزادی ام کلثوم سے نکاح کیا.    اس کے علاوہ آپ نے سات اور نکاح کئے تھے ، جن سے آپ کے  سات صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں تھیں.
حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے آپ کے لیے متعدد ارشاد کئے ، ایک موقع پر حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کے اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا.  حضور کے اس ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بارگاہ نبوی میں حضرت عمر ؓ کی کتنی اہمیت تھی . ایک اور موقع پر  حضور پاک صلی الله علیہ  وسلم نے فرمایا جس راستے سے عمر گزرتا ہے  شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے یعنی کے شیطان بھی حضرت عمر ؓ سے خوف کھاتا ہے .   اسی طرح سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کے خدا نے عمر کی زبان سے حق جاری کر دیا  ہے. آپ کا لقب فاروق بھی اسی امر کی نشاندھی کرتا ہے ہے جس کے معنی  ہیں  سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے والا. آپ کی علمیت کےبارے میں  حضرت ابن مسعود  ؓ فرماتے ہیں کہ  علم کے دس حصوں میں سے ایک حصہ ساری امت کو دیا گیا اور باقی نو حصے  حضرت عمر ؓ کو دئیے گۓ ہیں.  صحابی رسول کی اس شہادت کو اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے  تو کافی حد تک یہ بات درست معلوم ہوتی ہے .  دور خلافت میں آپ کی جانب سے کئے جانے والے کام، آپ کے فیصلے، اجتہادات  اور آپ کے فرمادات رہتی دنیا  تک لوگوں کو فائدہ پہنچا تے رہیں گے.  اسی سلسلے میں حضرت علی کرم الله وجہ  کا بھی ارشاد ہے کہ جب صالحین کا ذکر کرو تو عمر ؓ کو ضرور یاد کر لیا کرو.
حضرت عمر ؓ نے منصب خلافت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وفات کے بعد 13 ہجری میں سنبھالا   اور تقریبا ساڑھے دس سال تک یہ ذمہ داریاں سنبھالی.  حضرت عمر فاروق  ؓ کا دور اسلامی فتوحات کا دور تھا . اس وقت کی دونوں طاقتور ریاستیں ایران اور روم کو شکست دیکر ایران، عراق، شام اور بیت المقدس  کو اسلامی ریاست میں شامل کیا گیا اور چھوٹے بڑے 3600 علاقوں کو فتح کر کہ 22 لاکھ مربع میل پر اسلامی حکومت قائم کی  اتنی فتوحات آج تک کسی حکمران کو حاصل نہیں ہوئی  اسی لیے اگر کوئی سکندر اعظم ہے تو بجا طور پر حضرت عمر فاروق رضی الله تعالیٰ عنہ ہیں. دور فاروقی میں 900 جامع مسجد اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئی.  اسی دور میں اسلامی ریاست میں باقاعدہ عدالتی نظام رائج کیا گیا ، چھاونیاں قائم کی گئی . پولیس اور ڈاک  کے محکموں  کو تشکیل دیا گیا  شراب نوشی کی حد 80 کوڑے مقرر کی  ،  تراویح  کو باقاعدہ جماعت کی شکل دیکر مساجد کو مزین کیا گیا ، آپ کے دور میں عدالت میں ایسے بے مثال فیصلے ہوۓ جو کا آج تک لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں . انصاف کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع پر آپ
 منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم یرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوۓ تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ مجھ  کو کیا حق ہے کہ خدا کے مال میں سے باندی رکھوں۔ میرے لیۓ صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا سردی  کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی کوکسی دوسرے ملک کا گورنر یا  عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے کہ گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا، عمدہ کھانا نہ کھانا، باریک کپڑا نہ پہننا  اور حاجت مندوں کی داد رسی کرنااور اگر کوئی ان شرائط کی خلاف ورزی کرتا تو سزا دیتے تھے  غرض یہ کہ اسلامی سلطنت کے حکمران سے لیکر عام شہری تک کوئی بھی قانون سے مستثنیٰ نہیں تھا. یہی وجوہات تھی کہ پورے اسلامی سلطنت میں امن و امان قائم تھا.
حضرت عمر فاروق ؓ نے حکمران ہونے کے باوجودساری ساری رات گلیوں اور بازاروں میں پہرے دئیے، ضرورت مندوں ، ناداروں ، بھوکوں اور پیسوں کی مدد کے لیے خود چل کر گۓ، اسلامی سلطنت میں موجود ہر شخص  کی ضروریات کی تکمیل کے لیے دن رات کام کیا ، قحط کے دنوں میں خود گھی اور زیتون ترک کر دیا اور غریبوں کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہے.  آج کے عہد کی کامیاب اور سپر پاورز حکومتیں بھی  حضرت عمر ؓ کے دور حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتی  اور اگر موازنہ کریں  تو  اندازہ ہوگا کہ اس دور کی اسلامی سلطنت میں جوعوام کی فلاح کے لیے، سستے اور آسان انصاف کے لیے  اور لوگوں کی داد رسی کے لیے جو  کام 1400 سال قبل کئے گۓ تھے ، موجودو دور کی جدید حکومتیں تمام سہولیات ہونے کے بعد بھی ان تک نہیں پہنچ سکی ہیں.  بقول غیر مسلموں کے کہ اگر حضرت عمر ؓ دس سال اور رہتے تو پوری دنیا میں اسلام ہوتا.
ایک مجوسی غلام ابو لولوفیروز مجوسی  نے28 ذی الحج  کو  نماز فجر کے وقت آپ ؓ پر حملہ کیا  اور آپ کے شکم مبارک میں خنجر سے وار کیا جس کے باعث حضرت عمر فاروق  ؓنے یکم محرم الحرام کو شہادت کا جام نوش کیا . اور حضرت عائشہ ؓ کی اجازت کے بعد آپ کو نبی کریم  صلی الله علیہ وسلم اور اپنے پیش رو حضرت ابو بکر صدیق کے پہلو میں دفن کیا گیا.  
دور فاروقی اسلامی عہد  کا بے مثال دور ہے  اس دور کے کارنامے اور فیصلے تمام ملکوں اور مذاہب کے لیے مثال کی اہمیت رکھتے ہیں . دیگر مذاہب کے بڑے بڑے لوگ حضرت عمر ؓ  کے کارناموں سے متاثر ہیں اور آپ کی تعریف کئے بنا نہیں رہ سکے  مگر آج کے دور کا مسلمان اپنے کارناموں کو یاد کرنے کے بجائے غیر مذاہب سے مدد مانگنے کے لیے دوڑا چلا جاتا ہے. ہمارے حکمرانوں کو چاہئیے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے غیر اسلامی ملکوں کی پیروی کرنے کے بجائے خلفاۓ راشدین کی اصلاحات ، کارناموں اور فیصلوں کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں . اور خلفاۓ راشدین کے کارناموں  کو نئی نسل کی اصلاح اور ہدایت کا ذریعہ بنائیں.